سکندر اعظم:عسکری قیادت کا ایک مطالعاتی کیس

آرٹیکل

Christopher Berg
کے ذریعہ، ترجمہ Samuel Inayat
دوسری زبانوں میں دستیاب: انگریزی, فرانسیسی, پرتگالی, ہسپانوی
آرٹیکل پرنٹ کریں PDF

تاریخ کے بارے میں پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی یہ اپنا راستہ خُود تعین کرتی ہے لیکن بعض اوقات، ایک فرد کی بامقصد موجودگی تاریخ کو اس کی مرضی کے مطابق موڑ دیتی ہے۔ ایسا ہی ایک شخص سکندر اعظم تھا جو اپنے یقین، بصارت، ذہنی مہارت، تقریر اور شاندار جسمانی برداشت کے ذریعے اپنی اور فتح کئے ہُوئے علاقوں کی تقدیر کو تشکیل دینے کے قابل تھا۔

Alexander the Great & Bucephalus Mosaic
سکندر اعظم اور بوسیفالس موزیک
Ruthven (Public Domain)

چھوٹی عمر سے ہی، سکندراعظم نے اپنی جوانی سے آگے کی پُختہ سمجھ دکھائی۔ تصور کرنے، اندازہ لگانے اور خطرات مول لینے کی اس کی صلاحیت اس کی بہت سی فتوحات میں واضح تھی۔ اس نے سغدیہ اور مکران (Sogdia and Makran جو اب اُزبکستان اور تاجکستان میں ہیں) جیسے دُشمن علاقوں میں خطرناک موسموں کا سامنا کرتے ہُوئے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ اُس نے غیر معمولی شائستگی کو برقرار رکھا اور قیادت کا مظاہرہ کیا اُس وقت جب سب اپنا توازن کھو بیٹھے۔ جب اس کے ایک تیر سینے میں اور دوسرا ٹانگ میں لگا تو اس نے دبایا (اور کہا کہ) زخموں نے اسے بہادری سے لڑنے کی ترغیب دی ہے۔

گرینیکس کی جنگ: ایک لیڈر (اور لیجنڈ) پیدا ہوا ہے

دریائے گرینیکس پر (Granicus تُرکی کے شمال مغرب میں واقع دریا) جنگ سکندراعظم کی زندگی کا سب سے اہم فوجی واقعہ تھا۔ گرانیکس کی جنگ، ٹائر کے محاصرہ یا گوگامیلہ کی یادگار جنگ سے کم نہیں تھی۔ (ٹائر لُبنان اور ساحلی شام کا علاقہ) اور(گوگامیلہ دریائے برمودس کے کِنارے واقعہ گاوؐں موجودہ عراقی کُردستان کے شمال میں ہے)۔ 22 سالہ نوجوان سکندراعظم اگرچہ بادشاہ تھا ایک جنرل بھی تھا۔ جہاں تک دشمن کا تعلق ہے،علاوہ اُن فوجی جوانوں کے جو اُسکے سساتھ تھے، وہ جنگ سے نہ واقف تھا۔ جبکہ اسکا سامنا ایک اعلیٰ فارسی فوج سے ہُوا، جس کی سربراہی ایک تجربہ کار فوجی کمانڈر میمنون آف روڈس (Memnon of Rhodes) کر رہا تھا۔ ایک تو اُس میں تجربہ کی کمی تھی دُوسرا اُسکی فوجی مہارت پر بھی سوالیہ نشان تھا۔ اِس سے پہلے کہ اُنکا فارسی فوج کے ساتھ میدانِ جنگ میں سامنا ہُوا، وہ میدانِ جنگ کے حوالے سے (جُغرافیائی اعتبار سے) دُشمن کے مُقابلے میں برابری پر نہیں تھے۔فارسی علاقے کے چپہ چپہ سے واقف تھے اور اُنہوں نے دریائے گرینیکس کا اُوپر والا علاقہ جنگ کے لئے چُنا۔ ایک قابل جرنیل کی قیادت میں اعلیٰ فارسی فوج سے لڑنا مشکل ثابت ہُوا۔ لیکن سکندراعظم باوجود جواں سال حملہ کرنے کی منصُوبہ بندی میں فیصلہ کرنے والا تھا۔ اسے اپنی صلاحیت پر اعتماد تھا۔ وہ جُرات اور بہادری میں شاندار تھا۔ اُسے اعتماد تھا کہ اُس کے جُرات مند دستوں کی نقل و حرکت سے اُسکے لئے موقع ہو گا کہ وہ دُشمن کی پیچیدہ چالوں کو سمجھ پائے۔مخالف کو پڑھنے اور بدلتے ہوئے حالات کیمُطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی اس کی صلاحیت غیر معمولی تھی۔ یہ ایک انمول آلہ تھا جس سے وہ دریائے گرانیکس پر آزمایا گیا اور اِسی سے تعین ہُوا کہ وہ ایک جنگجو بادشاہ تھا۔

گائے راجرز (Guy Rogers)(لیکچر، تھامس ایڈیسن اسٹیٹ کالج، ٹرینٹن، این جے، اسپرنگ 2004) (lecture, Thomas Edison State College, Trenton, NJ, Spring 2004), کے مطابق،دریا کا کِنارہ تین سے چار میٹر اونچا تھا، جو کہ سکندراعظم کے آدمیوں کے لیے بھاری جانی نقصان اٹھائے بغیر عبور کرنا مشکل تھا۔ مزید برآں، فارسی گھڑسوار سکندراعظم کے دستے پر چڑھ دوڑ سکتے تھے اور طاقت سے ان کا قلع قمع کر سکتے تھے۔ ایسی ہنگامی صورتحال اس کی طاقت کا آغاز تھا، لہذا دریا کے پار ایک بڑے پیمانے پر کاروائی کا مطلب یہ تھا کہ اضافی فورس شامل کی جائے جو فارسی فوج کا سامنا کرے اور یہ سکندراعظم اور اُسکے آدمیوں کیلئے قُربانی کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی۔

امینٹاس (سکندرِ اعظم کی فوج میں ایک افسر) اور اس کے دستے نے فارسیوں کا مقابلہ کیا جبکہ سکندراعظم اور اسکا گروہ ادھر ادھر گھوم کر فارسیوں میں گھس گئے۔سکندراعظم کے ارادوں کا اُس وقت پتہ چلا جب فارسی اپنے باقی آدمیوں کو اپنی تباہ کُن قوت کے ساتھ شامل کرنے میں ناکام رہے جو انہوں نے Amyntas کے خِلاف اِستعمال کی تھی۔ سکندراعظم کو جس صورت حال کی امید تھی وہ اس کی آنکھوں کے سامنے کھل گیا۔ امینٹاس نےسکندراعظم کوساتھی کی حثیت سے گھڑسوار فوج کی قیادت کر کے ایک اچھا موقع فراہم کیا تا کہ اُس کے بہترین جنگجوؤں کو جنگ میں لے جائے۔

سکندرِ اعظم کی شان اس کی بہادری اور جرات میں تھی۔ دستوں کی جرات مندانہ نقل و حرکت اسے دشمنوں کی چال اور طاقت کو سمجھنے کیلئے موقع فراہم کرے گی۔

فارسی کمانڈر میتھریڈیٹس (Mithridates) نے سکندرِ اعظم کے حملے کا سامنا کیا اور سکندرِ اعظم نے اس کے ساتھ دُشمن کی طرح برتاوؐ کیا۔ اس نے اس کے منہ پر ایک ٹوٹے ہوئے نیزے سے مارا۔ اور اِسطرح ایک فارسی کمانڈر کو اپنے آدمیوں کے سامنے قتل کر دیا۔ بہادری کا یہ بے مثال واقع تھا۔ Rhosaces اور Spithridates نے سکندرِ اعظم کا تعاقب کیا کہ وہ اِسکو ہمیشہ کے لیے ختم کرے۔ سکندرِ اعظم نے فوری ردعمل ظاہر کرتے ہُوئے Rhosaces کے خلاف جارحانہ کارروائی کی اور اسے ختم کر دیا، لیکن اس نے مہلک وار کیا جس سےسکندرِ اعظم کی کھوپڑی ڈھیلی پڑ گئی۔ پریشانی کی اس حالت میں سکندرِ اعظم نے اپنے آدمیوں کے پاس واپس جانے کی پوری کوشش کی۔ اس وقت اسپتھریڈیٹس پاس ہی تھا اور لوگ بھاگ رہے تھے۔ جیسے ہی اسپتھریڈیٹس (Spithridates) قتل کرنے کے لیے آیا، کلیٹس نے اس کے کندھے کو تن سے جُدا کر کے بازو کو بے کار کر دیا جس نے ایک تلوار کو پکڑ رکھا تھا۔ (اگر ایسا نہ ہوتا تو) سکندرِ اعظم کی عظیم مہم شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی۔

یہ ایک اہم فتح تھی، اس لیے نہیں کہ سکندر کی تعداد دو سے ایک ہو گئی تھی۔ اُسکی طاقت پہلے والی نہیں تھی۔ یہ وہ جنگ تھی جس نے ایک قابل کمانڈر کے طور پر اس کی اہلیت کو ثابت کیا اور بادشاہ کے طور پر اس کی حکمرانی کو جائز قرار دیا۔ اس نے اپنے آدمیوں کو دکھایا تھا کہ وہ ایک ہوشیار فوجی کمانڈر ہے اور وہ ان کا بہت خیال رکھتا ہے۔ سکندرِ اعظم کی طرف سے لیسیپس (Lysippus) کو مقدونیہ کے بہادروں کی عظیم یادگار کے طور پر کانسی کے 25 مجسمے اس بات کا ثبوت ہیں۔ سکندرِ اعظم نے 3,000 زرہ بکتر واپس ایتھنز کو اس تحریر کے ساتھ بھیجا: "سکندر بیٹا فلپ اور یونانی، سوائے سپارٹن کے، ایشیا میں رہنے والے وحشیوں سے۔"

لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ سکندرِ اعظم نے ایک ایسے رشتے کی بنیاد رکھی جو اُسکی موت تک اُسکو بار بار یاد آتی رہے گی۔ جنگ کے بعد، سکندرِ اعظم نے بہت سے زخمیوں سے بات کی اور اُن سے جنگی رو داد جانی اور جنگ میں ان کے انفرادی کردار کے بارے میں بھی پُوچھا ۔ایسا کرنے سے،اس نے اپنے اور اپنے آدمیوں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والا رِشتہ قائم کیا جو انتہائی مشکل وقت میں اس کی (آئیدہ کی مُہم جوئی میں) سب سے بڑی طاقت ثابت کرے گا۔ رابن لین فاکس (Robin Lane Fox) نے گرانیکس میں سکندرِ اعظم کے کردار کا خلاصہ کیا:

جنگ کی اگلی صفوں میں بھی بڑی سے بڑی حماقت نے سکندرِ اعظم کو ناکام نہیں کیا جِسے چند ایک جرنیلوں نے بھی مُناسب جانا۔ وہ اپنے آپ کو ایک ہیرو دکھانے کے لیے نکلا، اور گرانیکس سے لے کر ملتان تک اس نے بہادری کا ایک ایسا نشان چھوڑا جسے کبھی عبور نہیں کیا گیا اور شاید اس کی تمام کامیابیوں کو آسان سمجھا جاتا ہے۔ (495-496)

سغدیانا اور سغدیان چٹان

فارس سلطنت کے اندرونی علاقے دور دراز اور خود مختار تھے۔ یہاں تک کہ انہیں دارا کی حکمرانی سے آزاد بھی کہا جا سکتا تھا۔ دارا کی موت کے بعد، سکندرِ اعظم، نئے تاج پوش "ایشیا کے بادشاہ" نے سغدیہ نامی اس ناقابل تسخیر خطے پر دوبارہ تسلط قائم کرنا مناسب سمجھا۔ اگرچہ اس مہم جوئی میں اسے اپنی زندگی کے دو سال تک بہت سا جانی نقصان، اور آزمائش میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سکندرِ اعظم طاقتور مُخالفین کو اِتنا ہی دبا سکتا تھا جِتنا وہ دبا سکتا تھا۔ سب سے قابل ذکر محاصروں میں سے ایک 'سغدیان چٹان' پر واقع ہوا۔ یہاں اس کے آدمیوں سے (محاورے کے طور پر) کہا گیا کہ وہ لفظی طور پر 'اڑیں' اس سے پہلے کہ مُخالفین شکست فاش ہوں۔ سکندرِ اعظم کے آدمیوں نے اڑان بھری اور ایک ملحقہ پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ گئے تا کہ محصور ہونے والوں کا نظارہ دیکھیں۔ ،اس نے مُخالفین کو فوری ہتھیار ڈالنے کیلئے خوفزدہ کردیا۔ دوسری چٹان زیادہ ناقابل رسائی تھی اورناقابل تسخیر۔ سیسمیتھریس (Sisimithres)(سغدیانا قبیلہ کا لیڈر) جانتا نہیں تھا لیکن سغدیائی چٹان کے آکسیارٹس (Father in law of Alexander Oxyartes) اسے تسلیم کر لیا تھا۔ سکندرِ اعظم کا جرات مندانہ کارنامہ اس کی فتح کا باعث بنا اور اس سے سیسمیتھریس کی بڑے سامان تک رسائی ہوگئی، جس میں اشیائے خوردونوش کا ایک بڑا ذخیرہ شامل تھا۔ سکندرِ اعظم کی فوج کیلئے وہ خُوراک اتنی تھی جِس سے وہ مُطمعین ہو سکیں۔ اُنہون نے آزمائشیں اور مُشکلات اِتنی برداشت کیں کہ یہ ایسے ہی تھا جیسے اُن کی روحیں پہلے والے جنم کے گُناہوں کی سزا بھُگت رہے ہیں۔بہرحال یہ ایک اچھا وقت تھا جہاں وہ اپنی محنت کا پھل کھا سکتے تھے چاہے وہ کتنا ہی عارضی کیوں نہ ہو۔جب کہ اس کے عزائم ان سب کو فتح کرنے میں مضمر تھے جو اس کے سامنے کھڑے تھے۔ سکندرِ اعظم کو اس امکان کا سامنا کرنا پڑا کہ کیا وہ اپنی نئی جیتی ہوئی سلطنت کو اپنے ماتحتوں کے حوالے کر دے گا؟۔ وہ یہ نہیں کرے گا. سکندرِ اعظم کو ایک وارث کی ضرورت تھی تا کہ سلطنت کو اُسے مُنتقل کرے یعنی Oxyartes کی بیٹی Roxane (سغدیان کی شہزادی) کو جو غلط اِنتخاب نہیں تھا۔

Map of the Greco-Bactrian Kingdom
Greco-Bactrian سلطنت کا نقشہ
PHGCOM (CC BY-SA)

سکندرِ اعظم کا سب سے بڑا چیلنج - مکران

فاکس (Fox) کے مطابق، "ایشیا میں فوج کی تمام تکالیف کا مجموعہ بھی مکران کی مشکلات سے موازنہ کرنے کے لائق نہیں ہے۔" (399) مکران ایک بنجر زمین تھی۔ سکندرِ اعظم کے اپنے افسر، نیارکس (Nearchus) فاکس (Fox) اور گرین (Green) کے تاریخی مواد کے مُطابق مکران ک تصویر پُر کشش نہیں تھی۔ سکندرِ اعظم کے ہندوستان پر حملہ کرنے کا منصوبہ Hyphasis کی بغاوت کی وجہ سے ناکام ہُوا۔ اگر اُسکے لئے یہ مُمکن نہہیں تھا کہ وہ ہِندوستان میں اپنی خواہشات کو پُورا کر سکے،(تو پِھر اُسکے لئے یہی مُناسب تھا) کہ وہ وہ عظیم الشان انداز میں مکران کے ذریعےجو میسوپوٹیمیا کو جانے والا مشہور راستہ نہیں تھا، فارسی سلطنت کے وسط میں واپس آجائے۔ ملکہ سیمیرامیس اور کنگ سائرس (Semiramis and King Cyrus) واحد ہیں جو یہاں سے گُزرے۔ایسی صُورتِ حال میں تمام مثبت و منفی پہلوؐں کو مدِ نظر رکھتے ہُوئے سکندرِ اعظم نے جوش میں آتے ہُوئے دیوتاوؐں کے کارناموں اور فطرت کا بھی مُقابلہ کرنے کیلئے ایک بہترین موقع سنجھا۔ وہ دل سے ایک مُہم جوئی کرنے والا(adventurer) اور نئی دریافت کرنے والا (explorer) تھا لیکن جانتا تھا کہ اسے آگے آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اس نے ذہانت کے ساتھ تاریخی رپورٹوں کا جائزہ لیا اور ہنگامی حالات سے نِمٹنے کیلئے منصوبہ بندی کی۔

سکندرِ اعظم ایک خواب بین تھا۔ اُسے یقین تھا کہ اُسے ایک دیوتا نے جنم دیا ہے اور کوئی کارنامہ ناممکن نہیں ہے۔

پنجاب میں سکندراعظم نے سمندری سفر کیلئے بحری جہازوں کا ایک بیڑا بھی جمع کیا تا کہ اُسکے ساتھ ساتھ زمینی فوج بھی چلے۔ سکندراعظم ایک خواب بین تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اسے ایک دیوتا نے جنم دیا ہے اور کوئی کارنامہ ناممکن نہیں ہے۔ لیکن کیا اسے واقعی معلوم تھا کہ مکران میں جا کر اُسے اور اُُسکے آدمیوں کو کیا حاصِل ہو گا؟، شاید نہیں، لیکن اس کی ذہانت اور دیوتا جیسی صِفت کی وجہ سے ناساز حالات میں بھی مردوں کے حوصلوں میں زبردست اضافہ ہوا ہوگا۔ اگر سکندراعظم ایسی کوشش کو جُوا بھی سمجھے، تو بھی ایسا مُمکن تھا۔ اُس کے آدمی جانتے تھے کہ اُس نے جو کچھ بھی کیا اُسکا اُسے پھل ملا۔ جب اُسے شکست کا سامنا ہُوا ہی نہیں تھا تو پِھر صُورتِ حال مُختلف کیوں ہو؟۔

مکران ایک "خوفناک تجربہ" ہو گا، اور غالباً سکندراعظم کے لیے یہی کشش تھی، (فاکس، 390) یہ جان کر کہ دوسروں نے بھی اِسے عبورکرنے کی کوشش کی تھی اوروہ زندہ نکل آئے۔ جب ثابت ہُوا کہ یہ ناقابلِ مزاہمت ہے، وہ اس طرح کے کارنامے کو پیچھے چھوڑے بغیر رہ نہیں سکتا تھا۔۔ پورے سفر میں سکندراعظم نے مِثالی رہنمائی کی حالانکہ وہ ملتان میں ایک تیر سے پھیپھڑوں میں شدید چوٹ کا شکارہُوا تھا۔ پیٹر گرین (Peter Green) ایک اور متاثر کن حوصلہ بڑھانے والی کہانی بیان کرتا ہے (اِقتباس نیچے ہے) جو سکندراعظم کے کردار کی عکاسی کرتی ہے:

اس کے باوجود، سکندراعظم نے اپنے آدمیوں کی مشکلات کو بانٹ کر اپنے وقار اور مقبولیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ ایک بار جب اسے کسی قریبی گلی میں کیچڑ بھرا ہیلمٹ ملا وہ ہنسا (اور کہا) عطیہ دینے والے کا شکریہ اور پھر پانی کو باہر ریت میں پھینک دیا۔ اس عمل کا اثر اتنا غیر معمولی تھا کہ سکندر کا ضائع ہونے والا پانی فوج کے ہر آدمی کے پینے کے برابر تھا۔ (434)

اس سے ہمیں سکندراعظم کی پراسرار فطرت کی ایک جھلک ملتی ہے۔ ایک ایسا آدمی جس کی ہم صرف مشکل کے وقت ہی امید کے طور پر دیکھ سکتے ہیں اور ایک ایسا آدمی جسے ہم صرف ان لوگوں کی آنکھوں سے ہی جان سکتے ہیں جو اسے سب سے بہتر جانتے تھے۔

وہ وجوہات جِن کی وجہ سےسکندراعظم نے مکران کو عبُور کرنے کیلئے مُشکلات کا سامنا کیا، فاکس اِن الفاظوں میں بیان کرتا ہے:

مکران ان لوگوں کی خواہش تھی جو ایک مِثال قائم کرنا چاہتے تھے کیونکہ مُزید کوئی علاقہ باقی نہیں تھا جِسے فتح کیا جائے۔ لیکن یہی وہ قُدرتی مناظر سے بھرپُور علاقہ تھا جسے فارس نے چھوڑ دیا تھا۔ راستہ صِرف مشکل ہی نہیں تھا بلکہ جہنم میں چلنے کے مترادف تھا۔ جسے سکندراعظم نے ممکنہ طور پر منتخب کیا تھا۔ لیکن کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ (403)

اس اقتباس کا آخری جملہ سب سے زیادہ معلوماتی ہے، "لیکن کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔" کسی نے اس کی مخالفت کیوں نہیں کی؟ اس کا جواب دریائے گرانیکس سے مل سکتا ہے، جہاں سکندراعظم نے اپنے آدمیوں کی وفاداری اور ہمہ وقت محبت جیت لی تھی۔ وہ، وہ آدمی تھا جِسکی طرح ہر کوئی بننا چاہتا تھا اور کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا تھا۔ ان کی تلاش کے اختتام پر، انہوں نے "سیمرامیس کی پہاڑی" (hill of Semiramis) کو دیکھا۔ یہ ان لوگوں کے لیے ایک یادگار تھا جو پہلے آئے تھے اور ان لوگوں کے لیے جو اب گزر چکے تھے۔ "سیمیرامیس (بابل سے ایک جنگجُو خاتُون) کے نام نے زندہ بچ جانے والوں کو سلام کیا، اس لیے تسلی کے لیے کہا جا سکتا ہے، وہ صحرا سے بھی گزری ہوں گی۔" (فوکس، 402) لیکن، سکندراعظم کے دفاع میں اُسکی مہم کا اِختتام صِرف بیس زِندہ بچ جانے والوں کے ساتھ نہیں ہُوا بلکہ ہزاروں کے ساتھ۔

مستقبل کا دوبارہ تصور کرنا: کیا ہوتا اگرسکندراعظم طویل عرصے تک زندہ رہتا؟

اگر سکندراعظم لمبی عُمر پاتا تو وہ یقیناً جنوب میں عرب، شمال میں کیسپین کے آس پاس کے عِلاقے اور مغرب سے شمالی افریقہ میں جا کر فتح کی اپنی پیاس بُجھاتا رہتا۔ یہ خیال کرنا مناسب ہے کہ اگر وہ زندہ رہتا تو وہ ممالک مقررہ وقت پر فتح ہو چکے ہوتے۔ بابل میں اس کی موت سے پہلے ہی مستقبل کی مہمات پر سنجیدگی سے غور اور منصوبہ بندی کر لی گئی تھی اور غالباً سوچا تو ہمدان میں ہیفیسٹیشن کی موت (Hephaestion's death at Hamadan) کے بعد گیا تھا۔ اگر وہ ایک دہائی سے کم عرصے میں ایک نوافائٹ (neophyte ایک نیا مُہم جُو) کے طور پر جانی گئی دنیا کی سب سے بڑی سلطنت پر فتح حاصل کر سکتا تھا، تو ذرا سوچئے کہ وہ اپنی طاقت کے عروج پر کیا کر سکتا تھا۔ اگر سکندراعظم پارمینیو (Parmenio's ستر سالا) کے برابرعمر پاتا تو قدیم دنیا، تاریخ کی نصابی کتابوں میں درج کی گئی چیزوں سے بہت مختلف ہوتی۔

The Empire of Alexander the Great
سکندر اعظم کی سلطنت
Captain Blood (CC BY-SA)

سکندراعظم کا ماضی کا ریکارڈ ہمیں جو بتاتا ہے وہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو اس نے فتح کیا تھا اگر وہ اس کی حکمرانی کو قبول کر لیتے ہیں تو انہیں کوئی خوف نہیں تھا۔ اس نے روایتی طور پر دوسروں کے عقائد اور عادات کو اپنے عقائد کے ساتھ ہم آہنگ کیا اور اکثر انہیں سب سے آگے رکھا۔ اس طرح کے اقدامات کے حق میں بہت سی نظیریں موجود تھیں۔ تاہم، ایک چیز تھی جس سے مقامی لوگوں کو خوف لاحق ہو سکتا تھا اور وہ تھی کہ اپنی جگہ سے ہٹ جانا یا نقل مکانی ۔ اگرچہ انہیں اپنے رسم و رواج اور اپنے مذاہب کو برقرار رکھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے، لیکن ان سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ دوسرے نسلی گروہوں، جیسے مقدونیائی (Macedonians)، یونانی اور فارسیوں کے ساتھ 'گھل مل جائیں'۔ یہ سکندراعظم کی آخری خواہشات میں سے ایک تھی، اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس پر عمل درآمد کیا گیا ہو۔

سکندراعظم اپنی سلطنت کی سب سے بڑی طاقت ہوتا۔ نپولین (Napoleon) کی طرح اُسکی طاقت 30،000 مردوں کے برابر تھی۔اس کے تمام آدمیوں کی وفاداری بہت اہم تھی اور یہی اِسکی کمزوری ہو سکتی تھی یعنی اُسکی طاقت اُسکے آدمیوں کی وفاداری کے ساتھ مشروط تھی- محل کی سازش نے رومن شہنشاہوں کو دوچار کیا اور جیسے جیسے سکندراعظم کی سلطنت میں اضافہ ہوتا گیا، وہ اس سے مستثنیٰ نہیں تھا۔ جتنا زیادہ اس کے عزائم اِس پر مسلط ہُوئے، اتنا ہی وہ اپنی خواہشات کا غلام بن گیا۔

سکندراعظم آہستہ آہستہ یقینی طور پر ایک بادشاہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک دیوتا کے طور پر دیکھا گیا۔ یہ ممکن ہے کہ وہ بطلیموس (Ptolemy) کی طرح مصر میں حکومت کرتا۔ یہ بات معقول ہو سکتی ہے کہ آخرکار سب کی طرف سے صرف دیوتا کے بیٹے کے طور پرنہیں بلکہ ایک زندہ دیوتا کے طور پر اُسکی تعظیم کی گئی۔ اسے پہلے ہی سکے پر اور گانے میں الہی کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ بالآخر،سکندراعظم کی سلطنت، اس کی موت کے بعد، یا تو اس کے بیٹے یا اس کے مقرر کردہ جانشینوں کے پاس رہ جاتی۔ اس کے جانشین کو، ہر چیز کو ترتیب میں رکھنے کے لیے، سکندراعظم کی کچھ خصوصیات کا حامل ہونا ضروری ہوتا، خاص طور پر اس کی فوجی صلاحیت، مقناطیسی شخصیت، اور قائل کرنے کا انداز اور فوج کی وفاداری ضروری تھی۔ سکندراعظم کی موت کے بعد وارث کی کمی واضح تھی جو کئی نسلوں کے بعد ختم ہُوئی۔

سکندراعظم کی یاد دِلانے والے عناصر

سکندراعظم، جس نے فتح، جاہ و جلال اور دیرپا شہرت کی تلاش میں زمینی حدود تک کا سفر کیا وہ اچیلز (Achilles یُونانی مائتھولوجی کیمُطابق ٹروجن جنگ کا مرکزی کردار) اور پرانے ہیروز کو پیچھے چھوڑ گیا۔ دنیا کو قدموں کی چوکی بنانے کا اُسکا خیال محض خواہش نہیں بلکہ حقیقت تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ ایسا سوچتا ہے، تو اس کے آدمی اِس بات کو اُس وقت تک ایسا سمجھیں گے جب تک اُسکی حثیت ایک فاتح کی ہو۔ فاکس (Fox) فصاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ وہ ہمارے دل و دماغ میں اب بھی ہے:

سکندراعظم اپنی فیاضی کیوجہ سے مشہور تھا (لہازہ) وہ اُسی جذبے کا مُظاہرہ چاہتا تھا جو وہ اپنے لئے چاہتا تھا۔۔ کِسی بھی چِیز کی پرواہ نہ کرتے ہُوئے وہ اپنی خواہش کیمُطابق جیا، ضرورت سے بھی زیادہ مُہم جُوئی میں سکون میں رہا۔ وہ ایسا آدمی نہیں تھا کہ اُس سے کوئی آگے بڑھ جاے یا یہ کہا جائے کہ وہ کُحھ نہیں کر سکتا تھا۔ ایک پرجوش عزائم کا آدمی ہوتے ہُوئے وہ ہمیشہ پختہ خیالات رکھتا تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔یہ وہی تھا جس نے نامعلوم مُشکل ترین مہم جوئی کی۔ وہ ناممکنات میں یقین نہیں رکھتا تھا (یہ سوچتے ہُوے کہ) انسان کچھ بھی کر سکتا ہے اوراس نے تقریباً ثابت کر دیا۔ یونان اور یورپ کے درمیان (ُنیا کے سط میں) پیدہ ہونے والے سکندرِاعطم نے مثالی ماضی بعید کو جاننے کی کوشش میں زندگی گُزاری جس کے لئے اُسکے پاس وقت کم تھا۔ (496-497)

چوتھی صدی قبل مسیح میں اس کی حکمرانی کے بعد سے اب تک سکندراعظم اور مُخالفین جیسے مُقابلے نہیں ہُوئے۔ گرین (488) کے مشاہدہ کے مُطابق سکندراعظم نہ صِرف حقیقی ذہانت والا آدمی تھا بلکہ ایک فیلڈ کمانڈر کے طور پر تھا: وہ سب کُچھ تھا، سب سے زیادہ بے مثال جنرل۔ افسوس کی بات ہے کہ سکندراعظم کے پاس اپنے اعمال کی عظمت اور اپنے دل کے محفوظ رازوں کو قلمبند کرنے کے لیے کوئی ہومر (Homer قدیم یُونانی شاعر) نہیں تھا جیسا کہ گرین بیان کرتا ہے۔

اس کا افسانہ اب بھی زندہ ہے۔ اس کی لافانی ہونے کا ثبوت وہ یقین ہے جو اس نے دوسروں میں متاثر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کاموں کے پیمائش شُدہ مجموعے سے بھی بڑا رہا۔ اس لیے وہ اس اور آنے والی تمام نسلوں کے لیے ایک ناقابل حل معمہ رہے گا۔ (488)

اگر ایسا ہے تو، شاید ہم الیاڈ اور اوڈیسی (Iliad and Odyssey) کے کلاسک کاموں میں ہیرو کے بجائے، کلاسک سکندر اعظم کے ہیرو کی عزت کریں گے۔ سکندراعظم کو نسلوں تک اچیلز کی بہادری کا مقابلہ کرنے میں خوشی ہوتی۔ اس طرح اس کی یاد اور اعمال ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

کتابیات

ورلڈ ہسٹری انسائیکلوپیڈیا ایک ایمیزون ایسوسی ایٹ ہے اور اہل کتاب کی خریداری پر کمیشن

مترجم کے بارے میں

Samuel Inayat
I began my professional career in July 1975 by joining a government service in scale 10 and continued till I retired in June 2013 in scale 17 after rendering 40 years unblemished service. Most of my service was as a Civil Servant.

مصنف کے بارے میں

Christopher Berg
A history professor specializing in European and World history, Christopher Berg's research and writing focuses on creating a "usable" past that meets the needs of an educated public in the 21st century.

اس کام کا حوالہ دیں

اے پی اے اسٹائل

Berg, C. (2016, January 08). سکندر اعظم:عسکری قیادت کا ایک مطالعاتی کیس [Alexander the Great: A Case Study in Martial Leadership]. (S. Inayat, مترجم). World History Encyclopedia. سے حاصل ہوا https://www.worldhistory.org/trans/ur/2-854/

شکاگو سٹائل

Berg, Christopher. "سکندر اعظم:عسکری قیادت کا ایک مطالعاتی کیس." ترجمہ کردہ Samuel Inayat. World History Encyclopedia. آخری ترمیم January 08, 2016. https://www.worldhistory.org/trans/ur/2-854/.

ایم ایل اے سٹائل

Berg, Christopher. "سکندر اعظم:عسکری قیادت کا ایک مطالعاتی کیس." ترجمہ کردہ Samuel Inayat. World History Encyclopedia. World History Encyclopedia, 08 Jan 2016, https://www.worldhistory.org/article/854/alexander-the-great-a-case-study-in-martial-leader/. ویب. 22 Jul 2025.