خاندان بنو عباس

تعریف

Syed Muhammad Khan
کے ذریعہ، ترجمہ Zohaib Asif
25 March 2020 پر شائع ہوا
translations icon
دوسری زبانوں میں دستیاب: انگریزی, فرانسیسی, پرتگالی, ہسپانوی, ترکی
Flag of the Abbasid Dynasty (by BlinxTheKitty, Public Domain)
بنو عباس کا جھنڈٓا
BlinxTheKitty (Public Domain)

بنوعباس ایک عرب خاندان تھا جو کہ اسلامی سلطنت (چند مغربی حصوں کے علاوہ) کے زیادہ تر علاقے پر حکومت کی۔ بعد ازاں، ان کی حکومت کا شیرازہ بکھر گیا۔ تاہم، ۱۲۵۸ عیسوی تک انہیوں نےبطور خلیفہ اپنی روحانی بالادستی کو قائم رکھا۔ خاندان بنو امیہ کا تختہ الٹنے کے بعد انہوں نے خلیفہ کا عنوان اپنا لیا، اور اس طرح(۶۳۲ تا ۱۹۲۴ عیسوی تک) بطور خلافت کردار ادا کرنے والا دوسرا خاندان بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

صلیبی جنگوں (۱۱۹۵ تا ۱۲۹۱ عیسوی) کے دور تک، وہ اپنے عظیم الشان ماضی کی محض ایک جھلک ہی رہ گئے تھے۔ ۱۲۵۸ عیسوی میں بغداد پر منگول حملے پر ان کے دور حکومت کا اختتام ہوا۔ بعد ازاں، مصر کی مملوک سلطنت (۱۲۵۰ تا ۱۵۱۷ عیسوی) کے زیر سایہ چند ’’نام نہاد خلفاء‘ کا ایک سلسلہ روان رہا۔ ۱۵۱۷ عیسوی میں سلطنت عثمانیہ(۱۲۹۹ تا ۱۹۲۴ء) کے فرماں روا سلطان سلیم اول کی مملوک سلطنت کو شکست دینے پر خلافت کا عہدہ ترکوں کے پاس چلا گیا، حالانکہ وہ اس سے کافی عرصہ قبل ہی اس عہدہ پر اپنا دعوی کر رہے تھے۔ عباسیوں کی موت کے ساتھ ہی اسلام پر عربوں کی اجارہ داری کا دور غروب ہو گیا۔

پیش خیمہ/آغاز

اسلامی رسول محمدﷺ (۵۷۰ تا ۶۳۲ء) کی وفات پر ۶۳۲ء میں خلافت کے عہدے کی داغ بیل ڈالی گئ۔ سنی مسلمانوں کے مطابق، پہلے چار اولو الامر خلافت راشدہ (۶۳۲ تا ۶۶۱ء، جن کی صحیح رہنمائی کی گئ ہو) کا حصہ تھے، اس کے برعکس، شیعہ مسلمان پہلے تین حضرات کو اہل بیت (گھرانہ رسول) کے جائز حق اور عہدہ کے غاصب قرار دیتے ہیں اور محض چوتھے حضرت، علی (۶۵۶ تا ۶۶۱ خلیفہ، نبی کے چچا زاد بھائی اور داماد) کو اپنا روحانی پیشوا یا امام (کئی اماموں میں سے پہلا) تصور کرتے ہیں۔ ۶۶۱ء میں علی کے قتل کے بعد، اسلامی تاریخ خلافت سے ملوکیت میں تبدیل ہو گئی جس کی مجسم تصویر خاندان بنو امیہ (۶۶۱ تا ۷۵۰ء) تھا۔

عباسیوں نے اہل بیت کو ان کا جائز حق، خلافت کا عہدہ دینے کا علم اٹھایا

اموی عام طور پر بہترین منتظمیں ثابت ہوئے اور انہیوں نے اپنی سلطنت کو سیاست اور اپنی جنگی قوت کے امتزاج کے بل بوتے پر قابو میں رکھا۔ تاہم، مختلف عرب اور عجمی قبائل، جن میں سے شعوں اور ایرانیوں، کا وفاق سے علیحدہ ہونا ایک ایسا سنگین مسلئہ تھا جسے وہ دائرہ اختیار میں نہ لا سکے۔ مزید برآں، اپنے دور کے خاتمے تک، شاہی خاندان کا اندرونی حلقہ بھی منتشر ہو گیا تھا، ان کا اتحاد پارہ پارہ ہو گیا تھا اور ریاست پر ان کا تسلط کمزور ہو گیا۔ آخری اموی مقتدر اعلیٰ، مروان ثانی ( ۷۴۷ تا ۷۵۰ء) نے ایک واضع بغاوت کی صورت میں اپنے عوام کی سرکشی، تنفر اور ہنوز دبائی جانے والی آگ کا سامنا کیا۔

بغاوت عباسیہ

عباس بن عبد المطلب (۵۶۸ تا ۶۵۳ء) محمدﷺ کے چھوٹے چچاوں میں سے ایک تھے، اور ان کی اسی نسبت نے ان کی آل اولاد کی اس بغاوت کو ہوا دی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ باغیوں نے کبھی اہل بیت کی اصطلاح کی کبھی وضاحت نہیں کی: شیع مسلمانوں کے مطابق اہل بیت خاندان علی تھا،جبکہ عباسی اس اصطلاح کو اپنے لیے استعمال کرتے تھے۔

Calligraphy of Abbas ibn Abd al-Muttalib
عباس ابن عبد المطلب کے نام پر کی گئ خطاطی
باسم (CC BY-SA)

اس شورش کا روح رواں ابو مسلم (و ۷۵۵ء) تھا۔ اس شخص کے بابت اتنی کثیر معلومات ہم تک نہیں پہنچی ہیں۔ جتنا ہمیں معلوم ہے، اس کے مطابق انتہائی محنت سے ترتیب دیئے گئ اموی برتری اورساسی تدبیر کے تحت اولیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکا اور عباسی حکومت کی بنیاد ڈالی۔

خلیفہ مروان کو سلطنت کو بچانے کے لیے حکومت کی ذمہ داری سے لیے گئے وقفہ سے نکالا گیا لیکن پہلے ہی پانی سر کے اوپر سے گزر چکا تھا، اب تک پس پردہ رہنے والی تحریک نے زور پکڑ لیا تھا اور ۷۵۰ء کے قریب، بنو عابس کی بغاوت اپنے عروج پر تھی۔ مایوسی کے عالم میں، خلیفہ نے خاندان عباسیہ کے سربراہ، ابراہیم کو گرفتار کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ اس کا انتہائی بے رحمی اور سفاکی سے قتل کر دیا گیا۔ اس کے چھوٹے بھائی ابو عباس نے تحریک کی باگ ڈور سنبھال لی اور کرب ناک بدلے کا مصمم ارادہ کر لیا۔

ابو عباس کی نگرانی میں عباسی افواج کی کثیر تعداد کا دیائے الزاب کبیر کے قریب (۷۵۰ء) میں مروان کے لشکر سے سامنا ہوا اور موخر الذکر اس وقت فاتح و کامران ثابت ہوا جب خلیفہ مروان کی افواج خوف و دہشت کے عالم میں میدان جنگ چھوڑ کر فرار ہو گئیں۔ مروان، جو کہ مغربی علاقوں سے اپنی افواج کو منظم کرنے اور لشکر میں اضافہ کی غرض سے مصر بھاگ گیا تھا، پکڑا گیا اور قتل کر دیا گیا۔ بعد ازاں کوفہ میں ابو عباس ’’السفاح’’ (خون کا پیاسا) (خلیفہ ۷۵۰ تا ۷۵۴ء) کو خلیفہ مقرر کر دیا گیا۔ شیعوں کو بعد میں اس امر کا ادراک ہوا کہ آل علی کے لیے ان کی محبت اور عقیدت کو عباسیوں کے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

عباسی حکومت کا طلوع

زاب کی جنگ میں فتح کے بعد، السفاح نے اپنی فوج کا زیادہ حصہ وسطی ایشیاء میں چینی تانگ خاندان کی پیش قدمی کو پسپا کرنے کے لیے بھیج دیا۔ چینیوں کی چڑھائی جنگ تالیس (۷۵۱ء) کے بعد رک گئی کیونکہ مسلمانوں کے لشکر نے انہیں ایک نتیجہ خیز شکست کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ لیکن انتشار اور خونریزی کے اس مختصر سانحہ کے بعد خوشگوار تعلقات کا سلسلہ جلد ہی شروع ہو گیا جس نے اسلامی تاریخ کو ایک نئے عہد میں لا کھڑا کیا۔ اس دور میں بجائے اپنے سلطنت کو وسعت دینے کے، عباسیوں نے اہنی ملکیت میں موجود علاقوں کے تحفظ اور عظمت و ترقی پر اپنی توجہ مرکوز کی

As-Saffah Being Proclaimed Caliph
السفاح کا خلیفہ بننے کا منظر
Muhammad Bal'ami (Public Domain)

السفاح نے بنو امیہ سے چن چن کر بدلے لیے، اور اپنے اس مقصد کی تکمیل میں کسی قسم کی نرم دلی کو مزاحم نہ ہونے دیتے ہوئے زندہ اور مردہ کسی کو نہ بخشا۔ شام میں بنو امیہ کی قبروں کو کھودا گیا اور ان کی باقیات کو جلانے کے ساتھ ساتھ تہہ و بالا کر دیا گیا۔ اسی طرح زندہ بچ جانے والے مرد افراد کو بھی بے دریغ موت کے گھات اتار دیا گیا۔ وہ افراد جو بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور چھپن چھپائی کا کھیل کھیل رہے تھے، انہیں تحفظ اور صلح پر آمادگی کے وعدوں کا جھانسا دے کر دعوت طعام دی جاتی اور پھر شاہی خاندان کی آنکھوں کے سامنے سفاکی اور درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قتل کر دیا جاتا تھا۔ یہ ریاست کے حاکمین پیک اجل کو لبیک کہنے والے شکاروں کی آہ و پکار پر تل دھرنے کے بجائے اپنے ہاں خوشی کے شادیانے بجاتے اور انہیں ان کے نالہ و فغاں اور چیخ و پکار سے ہکسر فرق نہ پڑتا۔

ایک دفعہ عبدالرحمان اول نامی ایک نوجوان اس قتل و غارت سے بچ گیا اور بچتے بچاتے اپنا دامن سنبھالتے ہوئے عباسی سلطنت کی حدود کے اس پار ہسپانیہ چلا گیا جہاں اس سے ۷۵۶ء میں امارات قرطبہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ السفاح الم حکومت سنبھالنے کے چار سال بعد ہی اس دنیا سے کوچ کر گیا جبکہ ریاست کی میان اس کے چھوٹے بھائی جعفر ’’المنصور‘‘ (فاتح، دور ۷۵۴ تا ۷۷۵ء) کے ہاتھ آ گئی۔ المنصور جیسے تابناک القابات اور خطابات رکھنے کی یہ روایت بعد میں آنے والی عباسی حاکموں کے ہاں بھی ملتی ہے۔

المنصور اور بغداد

ایک ایسی چیز جو عباسیوں کے ہاں اب بھی ناپید تھی، وہ ایک ذاتی دارالخلافہ تھا۔ الہلال الخطیب کا علاقہ زمانہ قدیم سے ہی انسانی تاریخ میں ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے، اور یہی وہ خطہ تھا جہاں المنصور نے دجلہ کے قریب ایک نئے دارالحکومت، بغداد کی تعمیر کا حکم صادر کیا۔ یہ وہ شہر تھا جو اپنی رونق، چہل پہل اور آب و تاب کی وجہ سے اپنے دور کے تمام یورپی شہروں کو ہر صف میں مات دے چکا تھا۔

City Plan of Medieval Baghdad
قدیم بغداد کا شہری منصوبہ
William Muir (Public Domain)

المنصور نے اپنے بھائی کی طرح کئی طرح کے مظالم ڈھائے۔ اس مرتبہ بنو عباس کے عناد کا سایہ علی کا سلسلہ نسب تھا۔ یہ سوچتے ہوئے کہ علی کی آل اولاد ان کی خلاف کسی قسم کی سازش کر ہی ہے، اس نے انہیں ایک بغاوت پر مجبور کیا اور پھر اس سرکشی کو انتہائی بربریت سے کچل دیا (۷۶۲،۷۶۳۴)۔ سلطنت عباسیہ قائم کرنے والا ابو مسلم (وفات ۷۵۵ء) بھی اپنی بڑھتی ہوئی طاقت اور اثر و نفوذ کی بدولت اس کی تلوار کا شکار ہو گیا۔ بنو عباس کے اس حامی کی ٹکڑے ٹکڑے کی ہوئی نعش کو بغیر کسی رسمی اعزازات کے دجلہ میں بہا دیا گیا۔

السفاح اورالمنصور کے اپنے مخالفین کے ساتھ رواں رکھے جانے والے ظلم و بربیت نے انسانیت کی تمام حدوں کو عبور کر دیا۔ وہ لوگ جو آل امیہ کو جہنم کا ایندھن بننے والی شیطانی مخلوق سمجھتی تھی، اب ان کے ساتھ ہمددری کرنے لگے تھے۔ المنصور ایک بہت شاطر سیاسی مدبر تھا، اور سلطنت عباسیہ کا حقیقی بانی بھی وہی تھا لیکن اس کی ظالمانہ اور ستمگرانہ طبیعت بطور سیاستدان اس کی تمام کامیابیوں پر غالب آجاتی ہیں۔

المہدی اور آل مہدی

انتہائی پرہیزگار اور متقی ہونے کی وجہ سے المہدی (۷۷۵ تا ۷۸۵ء خلیفہ) اپنے باپ امنصور کی نسبت بہت ہی مختلف مزاج شخص ثابت ہوا۔ یہ امر مسلم ہے کہ میدان جنگ میں اپنے دشمنوں اور حریفوں کو کچلنے کی راہ میں اس کی نیک دلی کبھی آڑے نہیں آئی لیکن عوام اور رعایا کے بابت اس کی جود و سخاوت اور فیاضی کی کوئی حدود نہیں تھیں۔ آل علی کے ساتھ کیے گئے اپنے باپ کے مظالم کی تلافی کے لیے اس نے ان کے قید میں موجود خاندان علی کے تمام افراد کو نہائیت شان و شوکت اور تکریم کے ساتھ رہا کیا اور بطور ازالہ ان پر اپنی دولت نچھاور کر دی۔ اس کی آنکھوں کا چراغ، اس کا محبوب نظر، الخیزران(وفات ۷۸۹ء) ایک باندی تھی، جسے اس نے آزاد کر دیا اور اپنی ریاست کی ملکہ بنا دیا۔

باوجود یہ کہ اس میں رحم دلی کوٹ کوٹ کر بھری تھی، خلیفہ المہدی کو بے ضرر نہیں سمجھا جا سکتا۔ مسلمان علاقوں میں بازنظینی دراندازیوں کو مسلمانوں کے فرماں روا کی جانب سے سختی سے نپٹا گیا۔ عرب اور بازنطینوں کے تعلقات کا آغاز ہی خوشگوار نہیں ہوا تھا جب محمدﷺ کی جانب سے بھیجے گئے ایلچی کو سنگ دلی سے قتل کر دیا گیا تھا اور اس قتل کے بعد، کشت و خون کے انبار لگ گئے۔ باوصف یہ جنگیں اور جھڑپیں ابتداء میں بے سود تھیں لیکن بعد ازاں انہوں نے خلافت راشدہ کے ہاتھ میں ایک کثیر رقبہ اور ڈھیوں مال و متاع تھما دیا۔ مزید برآں، چونکہ قبضہ کیے گئے ان نئے علاقوں کے باشندے زیادہ تر قبطی تھے، انہوں نے مسلم حکومت کو بلا چوں چرا قبول کر لیا اور حد یہ کہ، بازنطینیوں کے خلاف (جو کہ ان قبطیوں کو قتل کر دیتے تھے) اہنے نئے حاکموں کی مدد بھی کی ۔ عباسیوں کے دور تک، معاشرتی اور سیاسی صورت حال بہت حد تک ثبت ہو چکی تھی، اور مشرق میں بازنطینیوں کی واحد ملکیت اناطولیہ کا علاقہ تھا لیکن امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ مخلتف حکمرانوں نے عباسی علاقوں میں اپنی حدود پھیلانے کی خاطر جوں توڑ کوششیں کیں۔ ان کے منصوبوں کو تسلسل کے ساتھ ناکام بنایا جاتا رہا اور سزا کے طور پر ان سے خطیر زرمبادلہ لیا گیا۔

Gold Dinar of Al-Mahdi
المہدی کے سونے کے دینار
DrFO.Jr.Tn (CC BY)

۷۸۲ء میں، المہدی نے اپنے بیٹے، مستقبل کے ہارون الرشید کو ملکہ آئرین (دور ۷۸۰ تا ۷۹۰ء) کی افواج کو رفع کرنے بھیجا۔ میدان جنگ میں تباہ کن حالات اور اپنے لشکر کے پست حوصلوں کی بدولت، ایک امن معاہدہ پر راضی ہونے کے لیے بازنطینیوں کو مجبور کیا گیا۔ تاہم اپنی کامیابی کا رس پینے کے لیے خلیفہ زیادہ دیر حیات نہیں رہ سکا۔ اسے اس کی ایک داشتہ نے زہر دے کر قتل کر دیا اور اس طرح اس کے بڑے بیٹے االہادی (۷۸۵ تا ۷۸۶ء خلیفہ) نے عنان سلطنت سنبھال لی جسے بعد میں الخیزران کے بطن سے پیدا ہونے والے ایک اور بیٹے، ہارون کے ہاتھ جانا تھا۔

الہادی نے خود کو اپنے باپ کے طے کردہ اصولوں کی پیروی کرنے پر مجبور نہیں کیا اور وہ تخت کو اپنے بیٹوں کے حوالے کرنے کے دعوے کھلے عام کیا کرتا تھا۔ وہ وزراء اور ریاستی معمولات میں اپنی والدہ کے اثر و رسوخ کو بھی سخت ناپسند کرتا تھا اور اس کی طاقت کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی (بعض کے نزدیک تو اس نے اپنی والدہ کو زہر دینے کی کوشش بھی کی تھی)۔ تاہم، جیسا کہ قسمت کو منظور تھا، یہ نوجوان شہنشاہ حسن شباب میں ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔ تاہم، کچھ کا خیال ہے اسے ایک بے علاج عارضہ لاحق ہو گیا، باقیوں کے مطابق ایک ایسے سنگین مرحلے پر اس کی موت کا محض اتفاق ہونا لاتعدار لوگوں کے لیے خوش آیئند اور حسب موقع رہا ہوگا۔ خیر، اس دارفانی سے اس کے کوچ کرنے کا موقع و محل بدستور بحث و تمحیص کا مرکز و محور رہ چکا ہے۔

عباسیوں کا تابندہ دور

خلیفہ ہارون الرشید (۷۸۷ تا ۸۰۹ء خلیفہ) بنو عباس میں سے سب سے نمایاں اور ممتاز حاکم تھا۔ باوجود یہ کہ کہانیوں اور داستانوں میں اس کا عظیم الشان رتبہ اس سے چھین لیا گیا ہے البتہ اصلی ہارون الرشید ایک واقعی ہی بے نظیر شخصیت تھی۔ وہ فنون لطیفہ اور علم کا دلدادہ تھا اور اس کی یہ قلبی خواہش تھی کہ مسلمان علم کے معاملے میں دنیا کا سہرا ان کے سر سجا ہو۔ بغداد کا بےمثال ’’بیت الحکمۃ’’ (علم کا گھر) یا عظیم کتب خانہ اس خاص مقصد کی تکمیل کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ یہاں، یونانیوں کے کلاسیکی نوعیت کے علمی کاموں کا عربی میں ترجمہ کیا جاتا اور وقت کے ساتھ ساتھ، ان عربی تراجم نے یورپ کے سب سے بڑے اور بلند پایہ دماغوں کو نشاط ثانیۃ میں دوبارہ جنم لینے کے لیے بھڑکتی آگ پر بطور ایندھن اپنا کردار ادا۔ کیا۔

Harun al-Rashid
ہارون الرشید
Unknown (Public Domain)

اس کا دور علم و آگہی کے تابناک دور کا آغاز ثابت ہوا، تاہم ہارون خود ریاست کے انتظامی امور چلانے کے حوالے سے اتنا دلچسپ نہیں تھا، اس نے یقینی بنایا کہ ریاستی معاملات کا یہ حساس کام سب سے قابل اور قابل اعتماد شخص کے سپرد کیا جائے۔ نہ صرف یہ کہ اس کی حکومت نے انتظامی معاملات کے حوالے سے دن دگنی رات چگنی ترقی کی بلکہ میدان جنگ میں بھی جواں مردی کا مظاہرہ کیا۔ اپنے باپ کے دور کی طرح، بازنطینیوں نے ۸۰۶ء میں ایک مرتبہ پھرمعاہدہ کی خلاف ورزی کر کے مسلمانوں کی زمینوں پر دھاوا بول دیا۔ بازنطینی بادشاہ نائکیفورس اول (۸۰۲ تا ۸۱۱ ء حکومت) کی طرف سے ایک ذلت آمیز خط پھڑ کر ہارون کا خون کھول اٹھا اوراس سے ایسے جواب دیا:

’’امیر المومنین ہارون کی جانب سے رومیوں کے کتے (کلب الروم) نائکیفورس کے نام، بلاشبہ میں نے تمہارا خط پڑھا ہے، اس کا جواب بے شک تم اپنے کانوں سے سنو گے نہیں، بلکہ دیکھو گے‘‘ (علی، ۲۴۷)

خلیفہ نے فوراََ ہی تمام ضروری معاملات کی تیاری شروع کر دی اور میدان جنگ میں لشکر کی سربراہی بنفس نفیس خود کی اور اپنے دشمنوں پر ایسی ذلت آمیز شکست عائد کی کہ انہیں مزید رسوائی کے بعد امن معاہدے کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا۔

ہارون یہ بالکل نہیں جانتا تھا کہ اس کی سلطنت انتشار اور بکھراوْ کے ایک لمبے سفر پر گامزن ہو گئی ہے۔

یہ ہارون کا دور ہی تھا جب طاقت کی بنیاد پر ہونے والے امور میں ایک واضع تبدیلی رونما ہوئی: ہنوز خلیفۃ الوقت ہی پوری اسلامی دنیا کا واحد مقتدر اعلیٰ تھا لیکن اس اسلامی ریاست کے مغربی صوبے، افریقیہ کو قابو میں رکھنا ایک نہائیت ہی کم سود سودا تھا، اور وہاں کے عوام بھی باغیانہ روش رواں رکھتے تھے اورعموماََ خلیفہ کے اختیارات کو ماننے سے صریحاََ انکار کردیتی۔ یہ وہی دور تھا جب ابراہیم بن اغلب جیسے نامور صاحب تدبیر سیاستدان نے خلیفہ کو اسس مسلئہ کا ایک حل پیش کیا۔ اس نے اس علاقے کو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے بطور امارت حکومت کرنے کے اختیار کی عنائیت کا مطالبہ کیا۔ بدلہ میں اس نے خلیفہ کے ساتھ تاعمر دیانتدار رہنے کی قسم اٹھانے کے ساتھ ساتھ سالانہ محصول بھی جمع کرنے کا وعدہ کیا۔ اس طرح افریقیہ کے بنو الاغلاب (۸۰۰ تا ۹۰۹ء) تاریخ کے پنوں میں درج ہو گئے۔

ہارون کے لیے اصل مسلئہ اس کے اپنے ہی گھر سے کھڑا ہوا: اسے جانشینی کے لیے ایک لائحہ عمل مرتب کرنا تھا۔ اس کے دو مشہور بیٹوں میں الامین اور المامون شامل تھے۔ ہارون کی خواہش تھی کہ وہ حکومت کی باگ ڈور الامین (۸۰۹ تا ۸۱۳ء خلیفہ) کو سونپے لیکن ریاست کو دونوں بھائیوں میں تقسیم ہونا تھا۔ المامون کو اپنے علاقوں پر خلیفہ کا محکوم اور وارث کے طور پر حکومت کرنا تھی۔ یہ منصوبہ تاہم ناکام رہا۔

Gold Dinar of Al-Amin
الامین کے سونے کے دینار
DrFO.Jr.Tn (CC BY)

ہارون کی موت کے بعد، اس کے بیٹوں کے مابین اندرونی خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی اور اس ک لپپٹ میں سارا راج ہی آگیا جس کے سامنے انتشار، بد امنی اور طوائف الملوکی کی حالت ایک ہاتھ کے فاصلے پر کھڑی تھی۔ اسی وجہ سے اسے ’’چوتھے فتنہ’’ یا عظیم عباسی خانہ جنگی (۸۱۱ تا ۸۱۹ء) کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ صوبوں کے حوالے سے اندرونی فساد کم و بیش ۸۳۰ء تک جاری رہا۔ ابتداََ جنگ میں اپنا پلڑا بھاری رکھنے والا الامین بعد ازاں میدان جنگ میں بڑی بڑی شکستوں کا ساما کر رہا تھا اور شہر بغداد ہی اس کی حکومت کا واحد قلعہ اور گڑھ رہ گیا تھا۔ المامون کی افواج کی جانب سے حد سے بڑھے ہوئے حصار کی بدولت،خلیفہ نے ہتھیار ڈالنا بہتر سمجھا۔ نظر بندی کے عالم میں، الامین کو وحشی ایرانی فوجیوں کے ہاتھوں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ کچھ کے مطابق المامون کو اپنے بھائی کے قتل پر واقعی ہی بہت افسوس ہوا تھا اور اس نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے اس نے اس کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اپنے سر لے کر انہیں بھی اپنے بچوں کی طرح ہی پالا۔ مزید یہ کہ اس نے مجرموں کو سزا دینے میں بھی عجلت برتی۔

خلیفہ المامون (۸۱۳ تا ۸۳۳ء) تک حکومت کے فرائض منصبی سنبھالے رکھے اور حالانکہ اسلا کا درخشاں اور سنہری دور بام عروج پر تھا، یہ جلد ہی ماند پڑنے والا تھا۔ بھائیوں کی جنگ تو ختم ہو گیْ تھی لیکن اس خلفشار کو ختم ہونے اور سلطنت کو دوبارہ امن کی سطح پر واپس آنے کے لیے ایک دہائی سے زیادہ وقت درکار تھا۔ فن، جمالیات اور علم کے لیے المامون کا شوق درجہ کمال تھا پہنچ گیا اور اس معاملے میں اسے اپنے باپ پر بھی سبقت حاصل تھی لیکن و اکثریتی مسلمان عوام کے بنیادی عقائد کا پاس نہ رکھتے ہوئے اپنے معاشرہ کو عقلی بنیادوں پراستوار کرنا کئی اسلامی مورخین کے نزدیک اس کی قدر کو گھٹا گیا۔ ان اقدامات میں قرآن کو نئے سرے سے لکھنا یا اس میں ترمیم کرنے کے امکان کے حوالے سے بھی مباحث شامل تھے۔

اور اقتدار کھو گیا

المامون کی وفات کے بعد، بنو عباس ایک اخلاقی اور تمدنی زوال کے دور میں شامل ہو گئے۔ مامون کے جانشین ان پر عائد ہونے والی اتنی بڑی ذمہ داری کے ساتھ انصاف نہ کر سکے اور اسے نبھانے کی قدرت نہ رکھتے تھے۔ المعتصم (۸۳۳ تا ۸۴۲ء) اور الواثق (۸۴۲ تا ۸۴۷ء) نے اپنے ذاتی ترک نژاد ذاتی محافظوں کو شاہی محل کے معاملات پر اپنا اثر و رسوخ نافذ کرنے کا اختیار سونپ دیا۔ عباسیوں کی حاکمیت اور سربرآوردگی کے تابوت میں آخری کیل اس وقت لگی جب المتوکل (۸۴۷ تا ۸۶۱ خلیفہ) کو انہی ترکوں کی شورش اور سرکشی کے نتیجہ میں قتل کر دیا گیا۔ یہ امر مسلم ہے کہ المتوکل شرابی اور بدکار تھا اور انہیں صفات کی وجہ سے اسے ’’عرب نیرو‘‘ کے لقب سے نوازا گیا، لیکن اس کے قتل نے اس کے بیٹے المستنصر (۸۶۱ تا ۸۶۲ خلیفہ)، جسے بطور نام نہاد حکمران اور کٹھ پتلی کے طور پر مققر کیا گیا تھا، پرترکوں کے اختیار کو حد درجہ بڑھا دیا۔ نتیجتاََ، کچھ عرصے بعد ہی اس نوجوان شہنشاہ کی موت واقع ہو گئی۔

۹۰۹ء میں فاطمیوں کی صورت میں، جو کہ نبیﷺ کی بیٹی فاطمہؓ، کی نسل میں سے تھے، ایک بنیاد پرست شیعہ گروہ کا طوفان اٹھا جو کہ خلافت سے ہی منحرف تھا۔ انہوں نے بغداد کے عقیدت مند بنو الاغلاب کا بھی صفایا کر دیا اور اپنے اقتدار کا دائرہ کار وسیع کرتے رہے۔ آخر کار، فاطمیوں نے مصر اور مکہ اور مدینہ پر مشتمل حجار کے علاقے پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ اسلام کے ان سب سے مقدس شہروں میں ان کے نام کے خطبے سنائے جاتے تھے۔ ۹۲۹ء، قرطبہ کی امارت قرطبہ نے اپنے وجود پر خلافت کی دلیلیں دینا شروع کر دیں۔

Expansion of the Fatimid Caliphate
فاطمی سلطنت کی توسیع
Omar-toons (CC BY-SA)

لیکن بنو عباس کے لیے (جو کہ خود سنی تھے) سب سے بڑی ذلت ابھی باقی تھی،اور وہ ایک اور شیعہ گروہ، آل بویہ کی طرف سے دی جانی تھی۔ علی ابن بویہ (۸۹۱ تا ۹۴۹ء) اس ایرانی شیعہ گروہ کا بانی تھا جس نے ۹۴۵ء میں عباسیوں کی راج دھانی بغداد پر قبضہ کر لیا۔ عباسیوں کے لیے اس واقع سے اس سے زیادہ فرق نہ پڑ سکا کہ ان کے نزدیک سر توڑ کوششیں کرنے والا گروہ ہی بدلا تھا، اور مزید برآں کہ، ایک کے بعد دوسرے عوامی سربراہان نے اپنی اپنی انفرادی آزادی کا اعلان کر دیا تھا، جس سے ان کی سلطنت ویسے ہی پارہ پارہ ہو رہی تھی۔

تاریخی وتیرے کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ان تاریخی کہاوتوں یا اصولوں کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر وسطی ایشیاء کے میدانوں سے حملہ آور آئے اور آل بویہ کو نیست و نابود کر کے چلے گئے، سلجوقی ترک، جنہوں نے کچھ ہی عرصہ قبل سنی اسلام قبول کیا تھا ( تایم انہیوں نے اب بھی کئی قبل از اسلام روایات کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا) وسطی ایشیاء سے اناطولیہ کے وسیع و عریض میدانوں اور زمین کے خطوں پر چڑھ دوڑے اور پھر ۱۰۵۵ء میں سلطان سلجوق کے ایک بیٹے، تغرل بیگ نے بغداد کو اپنے تصرف میں لے لیا۔ آل بویہ کو دارالخلافہ سے نکال باہر کیا تھا لیکن خلیفوں کی صورت میں کٹھ پتلیوں کا سلسلہ یونہی برسرپیکار رہا۔

Fragmentation of the Abbasid Empire (891-892 CE)
عباسی سلطنت کا بکھراوؑ (۸۹۱ تا ۸۹۲)
Ro4444 (CC BY-SA)

صلیبی جنگیں

جوں جوں گیارہویں صدی بڑھ رہی تھی، سلجوقی طوفان تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ لیکن صدی کے اختتام تک دن پھر چکے تھے اور وہ اس قدر مضبوط اور قابل ذکر طاقت نہیں رہے تھے جیسا کہ وہ ماضی میں تھے۔ جب ۱۰۹۶ء مٰیں یورپی معززین اور اشرافیہ نے پہلی مرتبہ ارض مقدسہ پر قدم تھا، سلجوقی منتشر ہو چکے تھے اور مزاحمت کرنی کی سقت نہ رکھتے تھے۔ عباسی، جو کہ اب بھی مسلم امہ کے نام نہاد سربراہ تھے، بلا چوں چراں محض ان شرفا کی کاروائیوں کو تماشائی بن کر دیکھتے رہے اور سلجوقیوں نے بھی جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

مصر (فاطمیوں) اور ارض مقدسی (صلیبیوں) کی شاندار صورتحال کو بدلنے کا طرہ صرف ایک شخص اور ایک نعرہ کے سر سجتا ہے۔ وہ شخص ہے صلاح الدین اور وہ نعرہ ہے جہاد۔ صلاح الدین (۱۱۳۸ تا ٍٍ۱۱۹۳ زندگی) ایک سنی تجدید کار رہنما تھا جس نے ۱۱۶۹ء میں مصر میں شہرت اختیار کی اور ۱۱۷۱ء میں فاطمیوں کی اجارہ داری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے ہنوز فاطمی رقبے کو عباسیوں کی سرکردگی میں سونپ دیا۔ اس نے ارض مقدسہ میں مسلمانوں کے جواز کو زندہ رکھا اور اپنی ساری زندگی صلیبیوں اور ان کے حلیفوں کے خلاف تلوار اٹھائے کاٹ دی۔ ۱۱۸۷ء میں معرکہ حطین میں اسے ایک شاندار فتح نصٰیب ہوئی جب لاطینی افواج کی اکثریت کو اس نے گھٹںے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، اس کی وفات کے بعد بھی، صلیبی کبھی اپنی کھوئی ہوئی ہمت، حوصلہ اور طاقت کو دوبارہ حاصل نہ کر پائے اور بالاخر انہیں ۱۲۹۱ء میں ایک نئی مصری مسلم فوج، مملوک سلطنت (۱۲۵۰ تا ۱۵۱۷ء) کے ہاتھوں ارض مقدسہ میں اپنی آخری پناہ گاہ عکا کو بھی خیرآباد کہنا پڑا۔

European Depiction of a Victorious Saladin
فاتح صلاح الدین کی ایک یورپی ماہر کے ہاتھ سے بنائی گئی تصویر
Gustav Dore (Public Domain)

صلیبی جنگوں کے پس پردہ عباسی انی کھوئی ہوئی جنگی اور سول برتری کو دوبارہ حاصل کر رہے تھے۔ اس عظیم کام کی ذمہ داری اٹھانے والے شخص کو بھی اس جرم کی پاداش میں سلجوقیوں کے ہاتھ اپنی جان گنوانا پڑٰی تھی۔ یہ شخص خلیفہ المسترشد (۱۰۹۲تا ۱۱۳۵ دور) تھا جس نے خلیفہ کی اپنی ذاتی فوج تیار کرنا شروع کی۔ یہ کام المکتفي (۱۱۳۶ تا ۱۱۶۰) کے عہد میں پایہ تکمیل تک پہنچا جس نے بعد ازاں اپنے گھرانے کی مکمل آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ اس نڈرانہ عمل سے سیخ پا ہو کر سلجوقیوں نے ۱۱۵۷ء میں بغداد کا محاصرہ کر لیا لیکن شہر کے پایہ میں لغزش نہ آئی اور کئی بے سود اور لاحاصل کوششوں کے بعد، ترکوں کو شہر کی فصیل سے پسپا ہونا پڑا۔ اپنی انتظامی شان اور بغداد کی دیواروں سے لے کر بین النہرین اور ایران کے علاقوں تک عباسیوں کو اپنی عزت واپس دلوانے میں مدد کرنے پے الناصر (وفات ۱۲۲۵ء) کا کردار بھی قابل ذکر ہے۔ ان افعال کی بنا پر مورخین اسے آخری پراثر عباسی بادشاہ تصور کرتے ہیں۔

سقوط بغداد اور نتائج

اس نئی حاصل کی گئی آزادی کو جلد ہی ایک مرتبہ پھر خطرہ لاحق ہوا اور اتفاقاََ اس بار بھی حملہ آور وسطی ایشیاء سے ہی اٹھے تھے۔ یہ منگول تھے جنہیں ۱۲۰۶ء میں چنگیز خان نے ایک عظیم الشان فوج میں ترتیب دے دیا۔ آخری رسمی بادشاہ المعتصم (۱۲۴۲ تا ۱۲۵۸ دور) نے اپنی فوج کو ختم کر کے اور پھر ہلاکو خان کی چنوتی قبول کر کے تقریاََ ایک گناہ ہی سرزد کیا تھا۔ بیوقوفی کی اس داستان رقم کی وجہ پر مورخین اختلاف کرتے ہیں؛ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خلیفہ کو اسلامی ریاست کے ہر کونے سے مدد ملنے کی توقع تھی۔ وہ یہ بھول گیا تھا کہ تمام اسلامی ریاستیں اپنے اپنے مسائل سلجھانے میں مصروف تھیں۔

Mongol Siege of Baghdad
منگولوں کا محاصرہ بغداد
Sayf al-vâhidî (Public Domain)

منگول افواج نے ۱۲۵۸ء میں بغداد کا محاصرہ کر لیا اور اپنے جنگی طریقہ واردات سے بیت الحکمۃ جیسی عظیم الشان عبارات کو زمین بوس کر دیا اور اس کی کل آبادی کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ خلیفہ کو ایک قالین میں لپیٹ کر گھوڑوں کے سم تلے روندا گیا۔ شاہی خاندان کے زیادہ تر افراد کا قتل کر دیا گیا۔ شاہی خاندان کے محض ایک بچے کو بخشا گیا جسے بعد ازاں منگولیا بھیج دیا گیا اور ایک شہزادی کی بھی جان خلاصی کر دی گئی تاکہ وہ ہلاکو کے حرم کا حصہ بن سکے۔ اسلام کے مرکز تک پہنچنے کی منگول پیش قدمی کو عین جالوت (۱۲۶۰ء) کی جنگ میں مملوک سلطنت کے ہاتھوں روک دیا گیا۔ مملوکوں نے پھر قاہرہ میں عباسیوں کی ایک لڑٰی کو نام نہاد خلیفہ بنائے رکھا لیکن یہ افراد کٹھ پتلہ سے کچھ زیادہ نہیں تھے۔ ۱۵۱۷ء میں سلطنت عثمانیہ (۱۲۹۹ تا ۱۹۲۴ء) کے سلطان سلیم اول نے مملوک علاقوں کو فتح کر کے خلافت کا عہدہ اپنی نسل میں منتقل کر لیا۔

اختتامیہ

بنو امیہ کے خلاف عباسی سازش بہت حد تک کامیاب رہی لیکن عباسیوں نے بھی انہی انتظامی معاملات کو اپنایا جن کے لیے انہوں نے امویوں کی خلافت کی تھی۔ والیان ریاست کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد، عباسیوں نے اپنے اجداد سے کم علاقہ کا اختیار سنبھال لیا چونکہ ہسپانیہ ہمیشہ کے لیے ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ عباسیوں کے عروج کے ساتھ ہی اسلامی سلطنت بکھرنا شروع ہو گئی تھی نہ کہ بعد میں جیسا کہ کئی افراد سمجھتے ہیں۔ بنو عباس کو مزید علاقوں کی فتوحات اور رقبہ کو وسیع کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، انہوں نے تو امارت قرطبہ کے خلاف لڑںے کے لیے یورپی افواج سے بھی ہاتھ ملانے کی کوشش کی کیونہ موخر الذکر دونوں کی حریف حکومت تھی۔

Earliest Abbasid Era Manuscript
سب سے قدیم عباسی دور کی تحریر
Danieliness (GNU FDL)

کئی عباسی بادشاہ مادر زاد یا فطری سیاستدان نہیں تھے۔ وہ تو صرف ریاستی معاملات میں لوگوں پر انحصار کرنا جانتے تھے۔ المامون کے دور میں عربوں کی برتری پر مبنی ریاستی و معاشرتی ڈھانچہ ٹوٹنے لگا کیونکہ المامون اپنی والدہ کے نسب کی وجہ سے ایرانیوں سے ہمدردی رکھتا تھا۔ اس کی موت کے بعد ریاستی ساخت میں پیدا ہونی والی دراڑٰیں بہت گہری ہو گئیں اور خاندان عباسیہ باقی جماعتوں کا غلام بن گیا۔ بعد میں آںے والے خلفاء کی کوششوں سے عباسیوں کی طاقت تو واپیس آ گئی اور بلاشبہ یہ کوششیں قابل تعریف ہیں لیکن ہر شخص اور ہر شے ان کے خلاف تھی۔ سقوط بغداد کسی دور میں دنیا کی سب سے پرشکوہ اور عالی شان ریاست کا ناگزیر اختتام تھا۔ شریعہ اور جدید دنیا کی صورت میں ان کا ترکہ آج بھی ہم تک پہنچا چلا آرہا ہے۔ ہر قسم کے فنون، تعلیم اور بالخصوص قدرتی مظاہر کی سائنسی بنیادوں پر تحقیق کی سرپرستی بعد الذکر امر کی واضع دلیل ہے۔

کتابیات

ورلڈ ہسٹری انسائیکلوپیڈیا ایک ایمیزون ایسوسی ایٹ ہے اور اہل کتاب کی خریداری پر کمیشن

مترجم کے بارے میں

Zohaib Asif
جی میں زوہیب ہوں، زبان کا جادوگر اور ذہن کا مورخ۔ وقت کی چابی موڑنے والا، ماضی کے دریچوں میں جھانکنے والا الفاظ کا سنار۔ زبان اور تاریخ کے اس سفر پر میرا ساتھ ضرور دیجیے کیوں کہ اکھٹے ہم تاریخ کے سر بستہ رازوں سے پردہ ہٹائیں گے اور ساتھ ساتھ اٹھکیلیاں بھی کریں گے

مصنف کے بارے میں

Syed Muhammad Khan
محمد ایک ماہر نباتیات، تاریخ کا شائق، اور ایک فری لانسر ہیں۔ آپ ۲۰۱۹ سے اس انسائکلوپیڈیا میں شراکت کر رہے ہیں۔

اس کام کا حوالہ دیں

اے پی اے اسٹائل

Khan, S. M. (2020, March 25). خاندان بنو عباس [Abbasid Dynasty]. (Z. Asif, مترجم). World History Encyclopedia. سے حاصل ہوا https://www.worldhistory.org/trans/ur/1-18631/

شکاگو سٹائل

Khan, Syed Muhammad. "خاندان بنو عباس." ترجمہ کردہ Zohaib Asif. World History Encyclopedia. آخری ترمیم March 25, 2020. https://www.worldhistory.org/trans/ur/1-18631/.

ایم ایل اے سٹائل

Khan, Syed Muhammad. "خاندان بنو عباس." ترجمہ کردہ Zohaib Asif. World History Encyclopedia. World History Encyclopedia, 25 Mar 2020. ویب. 25 Apr 2024.