ارد شیر اول

تعریف

Joshua J. Mark
کے ذریعہ، ترجمہ Zohaib Asif
24 January 2020 پر شائع ہوا
translations icon
دوسری زبانوں میں دستیاب: انگریزی, فرانسیسی
Ardashir I - Founder of the Sassanid Persian Empire (by Mohammad Rasoulipour, CC BY-NC-SA)
اردشیر اول-ایرانی ساسانی سلطنت کا بانی
Mohammad Rasoulipour (CC BY-NC-SA)

ارد شیر اول (حیات ۱۸۰ تا ۲۴۱عیسوی، دور حکومت ۲۲۴ تا ۲۴۰ عیسوی) ایرانی سلطنت ساسانیاں (۲۲۴ تا ۶۵۱ عیسوی) کا بانی اور مشہور ساسانی بادشاہ شاپور اول (دور حکومت ۲۴۰ تا ۲۷۰ عیسوی) کا باپ تھا۔ اسے ارد شیر اول باباکان، رتخششتا اول، اردشیر الموحد، اور اردشیر پاپاکان کے دیگر ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے

وہ اصطخر کے شہزادے، پاپاک (جسے باباک اور پاپاگ بھی کہا جاتا ہے، دور حکومت ۲۰۵ تا ۲۱۰ عیسوی) اور قبیلہ شبانکاریح (جو بعض محققین کے مطابق ایک کرد قبیلہ تھا) کی شہزادی رودک کا بیٹا تھا اور ۱۸۰عیسوی میں فرسیس کے علاقے تردیہہ میں پیدا ہوا۔ وہ زرتشتی مذہب کے سب سے اعلی پیشوا ساسان (تیسری صدی عیسوی)، جس کے نام سے سلطنت ساسانیہ موسوم ہے، کا پوتا بھی تصور کیا جاتا ہے، جبکہ بعض ثبوت یہ گواہی دیتے ہیں کہ وہ ساسان کا بیٹا تھا جسے بعد ازاں پاپاک نے گود لے لیا تھا۔

اردشیر اول بادشاہ ارتابنس چہارم (دور حکومت ۲۱۳ تا ۲۲۴ عیسوی) کے دور میں اشکانی یا پارتھی فوج میں ایک سہہ سالار تھا۔ اس کے خاندان کی اصطخر کے رمزیتہٓٓ اہم علاقہ جہاں ہخامنشی سلطنت کے دارالحکومت تخت جمشید کے آثار موجود تھے، پر حکومت تھی۔ باوجود اس کہ ہخامنشی سلطنت (۵۵۰ تا ۳۳۰ قبل از مسیح) ایک قصہ پارینہ ہو چکا تھی، لیکن ارد شیر اول کے وقت میں میں اس کی وحشت و زعم اب بھی علاقے میں بدستور برقرار تھا۔ اور اس کے خاندان نے اس علاقے کا اقتدار ارتابنس چہارم کو سونپنے سے انکار کر دیا۔ دونوں کے مابین تعلقات کی مزید کشیدگی سے، اردشیر اول نے ارتابنس چہارم، جس کی طاقت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی، کے خرچ پر اپنے لیے بے شمار فوائد اکھٹے کیے۔

اردشیر اول عام طور پر مشرق وسطی اور خاص طور پر ساسانی سلطنت کے عظیم ترین بادشاہوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

۲۲۴ عیسوی میں، اردشیر اول نے ارتابنس چہارم کو جنگ میں شکست دی، جس کے نتیجے میں اسے نے پارتھین سلطنت یا اشکانی سلطنت (۲۴۷ قبل از مسیح تا ۲۲۴عیسوی) کا تختہ الٹ دیا اور سابقہ ​​فارسی ہخامنشی سلطنت کی کامیابی کے نمونے پراپنی ذاتی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس کے فوراً بعد اس نے اپنی کوششیں شہری ترقی اور روم کے خلاف فوجی مہمات پر مرکوز کر دیں جو عالمی سطح پر کامیاب رہی۔ اس نے اپنے بیٹے شاپور اول کے ساتھ اپنے اقتدار کے اختتام تک حکومت کی اور اس یقین دہانی کے بعد پرامن طور پر مر گیا کہ اس نے جس سلطنت کی بنیاد رکھی تھی اس کی باگ نیک ہاتھوں میں جاری رہے گی۔

زوال پذیر اشکانی سلطنت

۳۳۰ قبل از مسیح میں سکندر اعظم کی ہخامنشی سلطنت کے زوال کے بعد، سلقی سلطنت (۳۱۲ قبل مسیح تا ۶۳ قبل مسیح) نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا یہاں تک کہ ان کی جگہ پارتھیوں یا اشکانیوں نے لے لی۔ اشکانی بادشاہ ارسیس اول (دور حکومت ۲۴۷ تا ۲۱۷ قبل از مسیح) نے پارتھیا کی ایک آزاد سلطنت قائم کی جب کہ سلوقیوں کی طاقت اب بھی برقرار تھی لیکن، جیسے جیسے ان کی قوت ماند پڑی ، پارتھیا نے فائدہ اٹھایا اور اپنے علاقوں کو مزید وسعت عطا کی، اور بالآخر اس علاقے و رقبے کی اکثریت پر اپنا قبضہ جما لیا جو کسی دور میں ہخامنشی سلطنت کے زیر نگوں تھا۔

ایک مرکزی حکومت کی کمزوری کو تسلیم کرتے ہوئے - اور خاص طور پر ایک مرکزی فوج جسے ایک مقررہ مقام سے تعینات کیا گیا (جیسا کہ ہخامنشی سلطنت اور سلوقی سلطنت، دونوں کے معاملے میں واضح ہے) - پارتھیوں یا اشکانیوں نے زیادہ موثر انتظامیہ اور دفاع کو مزید منظم بنانے کے لیے دونوں کی مرکزیت کو ختم کر دیا۔ پارتھیوں کےعاملین اور صوبے داروں کو بہت زیادہ حد تک خود مختاری حاصل تھی اور وہ بادشاہ سے پہلے مشورہ کیے بغیر دفاع کے لیے فوجیں حرکت میں لا سکتے تھے۔

Ardashir I
اردشیر اول
dynamosquito (CC BY-SA)

اس نمونے اور سلسلے نے سلطنت کی زیادہ تر تاریخ میں پارتھیوں کے لیے کلیدی کردار ادا کیا لیکن، اردشیر اول کی پیدائش تک، رومی سلطنت کے ساتھ تعامل اور اندرونی اختلاف و انتشار کی وجہ سے ان کی طاقت و استحکام کو مستقل طور پر ختم کیا جا رہا تھا۔ لامرکزیت جس نے ابتدا میں اس قدر اہم امر سرانجام دیا اب ایک بوجھ ثابت ہو رہی تھی کیونکہ روم زیادہ آدمیوں کو میدان میں اتار سکتا تھا جس کا انفرادی صوبے داروں اور عاملین کی چھوٹی افواج مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں۔ مزید یہ کہ اس وقت تک ان عاملین اور صوبے داروں کی خودمختاری کے نتیجے میں سلطنت کے اندر چھوٹی ریاستیںوجود میں آئیں جنہیں سلطنت کے تحفظ سے زیادہ اپنے مفادات سے واسطہ تھا۔

ابتدائی زندگی اور طاقت کا حصول

اردشیر کے خطہ فارس کا سردار اور عامل گوچھر تھا (جسے گوچھہر بھی کہا جاتا ہے) جس سے اردشیر کے والد پاپاک کی کچھ ان بن تھی۔ ذرائع اس بارے میں واضح نہیں ہیں کہ آیا پاپاک جو کہ زرتشتی مذہب کے ایک اعلیٰ پجاری اور آتش کدہ کے رکھوالے کے ساتھ ساتھ شاہی خاندان کا سپوت بھی تھا، نے بغاوت شروع کی تھی یا وہ پہلے سے متحرک تحریک کے رہنماؤں میں سے ایک تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ پاپاک کے بڑے بیٹے، شاپور کو اپنے والد کا عہدہ سنبھالنے کے لیے تیار کیا گیا تھا جب کہ اس کے دوسرے بیٹے، اردشیر کو سات سال کی عمر میں قلعہ درابگرڈ کے سپہ سالار کے پاس فوجی معاملات اور انتظامیہ کی ہدایات کے لیے بھیجا گیا تھا۔

دارابگرڈ میں اردشیر کے وقت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے لیکن وہ ۲۰۰ عیسوی سے کچھ عرصہ قبل قلعہ کے سپہ سالار کا جانشین مقرر ہوا اور اسی طرح اس وقت تک اسے ایک قابل سپاہی اور منتظم سمجھا گیا ہوگا۔ ۲۰۰ عیسوی میں، پاپک نے گوچھر کا تختہ الٹ دیا اور تخت سنبھالا، جو اس نے اپنی موت سے پہلے اپنے بیٹے شاپور کے سپرد کر دیا۔ اردشیر نے اپنے خاندان کے ساتھ بغاوت میں حصہ لیا تھا اور ایسا گمان گزرتا ہے کہ اس نے اس بغاوت میں شاپور سے زیادہ حصہ ڈالا ہے لہذا اس نے فطری طور پر اپنے بھائی کے مقابلے میں نظر انداز کیے جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس نے شاپور کے اختیار کو للکارا، اور دونوں نے جنگ کے لیے تیاری کی، لیکن شاپور ان کی افواج کے ملنے سے پہلے ہی ایک تباہ شدہ جنگ سے پتھر گرنے سے مارا گیا۔

Victory Monument of Ardashir I
اردشیل اول کی فتح کی یادگار
Johannes Lundberg (CC BY-NC-SA)

اردشیر نے پھر ۲۰۸عیسوی میں اپنے آپ کو فارس کا بادشاہ قرار دیا جسے اس کے چھوٹے بھائیوں کی طرف سے اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا، لہٰذا، اس سے پہلے کہ وہ مسلح مزاحمت کر سکیں، اوراس خطے کو خانہ جنگی میں جھونکنے کے بجائے، اردشیر نے ان سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس قدم نے دوسرے شرفاء کو اس کے بھائیوں کا راستہ اختیار کرنے سے نہیں روکا اور اسی لیے اردشیر نے مہم چلا کر ان سب کو شکست دی۔ ان اقدامات نے اسے اشکانی شہنشاہ ارتابنس چہارم کی توجہ دلائی، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اردشیر کو اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ تھا کہ وہ دارابگرڈ میں اچھی طرح سے تربیت یافتہ تھا اور اس نے پہلے ہی کئی فوجی فتوحات حاصل کی تھیں۔

محقق کاویہ فرخ کے مطابقاردشیر کا اعتماد، اور بعد میں کامیابی، اس کے ذاتی کرشمے اور اس کے خاندان کے پہاڑی کردوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے تھی:

پارتھیوں کے خلاف بغاوت میں میڈیس اور کردوں کی حمایت حاصل کرنے میں اردشیر کی کامیابی شاید ایک پہاڑی باشندے کے طور پر اس کے اپنے ممکنہ ورثے کی وجہ سے تھی۔(۱۷۸)

ردشیر کا بادشاہ کے اختیار کو چنوتی دینے کا جواب دیے بغیر نہیں رہا جا سکتا تھا لیکن ارتابنس چہارم نے اس قسم کے وسائل کا اختیار نہیں دیا تھا جو اس کے پیشروؤں کے پاس تھا۔ اشکانی سلطنت میں رومیوں کی دراندازی ۱۱۶عیسوی سے جاری تھی، اور ۱۹۸عیسوی تک، سلطنت اب تک کی سب سے کمزور نہج پر پہنچ چکی تھی۔ پاپاک کی اپنی بغاوت شروع کرنے سے بہت پہلے پورے خطے میں بہت سارے عاملین اور صوبے دار تھے جو ارتابنس چہارم کے مختلف خطرات سےنمٹنے کے طریقوں سے سہمت نہیں تھے، کو اب اردشیر نے اپنے دربار میں جگہ دی اور اپنی بغاوت میں انہیں شامل کیا۔ ۲۲۴عیسوی میں، ہورموزدگان کی جنگ میں، اردشیر نے ارتابنس چہارم کو شکست دی اور پارتھین سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ مزاحمت بعد ازاں بھی کسی حد تک جاری رہی اور کچھ سلطنتوں نے اپنی پارتھیائی اور اشکانی شناخت کو برقرار رکھا لیکن، رسمی طور پر، ہورموزدگان اشکانی سلطنت کا خاتمہ ثابت ہوا۔

ابتدائی دور اور روم کے ساتھ جنگ

اردشیر کا بطور حاکم اعلی پہلا حکم سلطنت کے مختلف علاقوں کو متحد کرنا اور کسی بھی قسم کی مزاحمت کو کچلنا تھا۔ دونوں کام اس نے۲۲۴ تا ۲۲۷عیسوی کے دور میں انجام دیے۔ اسی وقت کے دوران میں اس نے کئی تعمیراتی منصوبے شروع کیے، جن میں مدائن شہر کی بحالی شامل ہے، جو پہلے پارتھین سلطنت کا دارالحکومت تھا، جسے ۱۹۷ عیسوی میں سیپٹمس سویرس نے نیست و نابود کر دیا تھا۔ اس کے بعد اس نے مدائن کو ساسانی دارالحکومت اور راجدھانی بنایا۔

اس نے حکومت اور فوج کو مرکزیت عطا دی، فوج کو پہلے کے ہخامنشی سلطنت کے اصول کے مطابق جامعیت تفویض کی، اور جسم کے زرہ بکتر کے حوالے سے سلوقی اور اشکانی جنگی بہترین پہلوؤں کو برقرار رکھا اور، پارتھیوں کا گھڑسوار فوج کا استعمال برقرار رکھا۔ جنگ اس نے عساکر قائمہ(سپاڈا یا سپاہ) کے ہخامنشی اصول کو بحال کیا اور صفوں کو بھرنے کے لیے عاملین پر عائد محصول (کارا) کو بحال کیا اور پارتھین گھڑ سوار دستہ کو اشرافیہ کے گھڑ سوار دستہ کی شکل میں بہتر بنایا جسے ساواران کہا جاتا ہے۔ یہ ساواران بھاری بکتر بند۔ مکمل طور پر لیس، اور اعلیٰ تربیت یافتہ جنگجو تھے جو ماہر گھڑ سوار بھی تھے۔

۲۲۶ تا ۲۲۷ عیسوی میں اردشیر اول نے ناکام کوشش کی کہ ہاترا شہر پر قبضہ کر لیا جائے جو ایک آزاد پارتھین یا اشکانی سلطنت رہا۔ اکثر محققین اردشیر اول کی تاجپوشی کو مدائن میں ۲۲۴عیسوی میں ہونے کب روایت کو قبول کرتے ہیں لیکن اس بات کے کچھ شواہد موجود ہیں کہ ۲۲۶ یا۲۲۷ عیسوی میں جب اس نے ہاترا کو اپنی سلطنت میں ضم کرنے کی کوشش ترک نہ کر دی اور جب تک کہ اس نے اکثریتی زمینوں کو متحد نہیں کیا اور تو شہر کو دوبارہ تعمیر کیا، اس کی تاجپوشی اس وقت تک نہیں ہوئی۔۔ ان بعد کی تاریخوں کو قبول کرنے کی معقول وجوہات ہیں کیونکہ وہ رومی مورخین نے روم کے ساتھ ساسانی جنگوں کے واقعات کے حوالے سے تجویز کی ہیں اور غالباً وہ ۲۲۶ عیسوی سے پہلے مدائن کو دوبارہ تعمیر کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔

Coin of Ardashir I
اردشیر اول کا سکہ
The Trustees of the British Museum (CC BY-NC-SA)

رومی زوال پذیر پارتھین یا اشکانی سلطنت سے نمٹنے کے عادی ہو چکے تھے اور اسی لیے وہ ایک نئی فارسی سلطنت کے ظہور کے لیے تیار نہیں تھے جو مطالبات کرنے کے لیے کافی مضبوط تھی۔ فرخ لکھتے ہیں:

رومیوں کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ فارس میں "نئی انتظامیہ" ایک ایسی طاقت تھی جس سے مقابلہ کرنا ٹیڑھی کھیر تھا۔ اردشیر نے ڈھٹائی کے ساتھ "اپنے آباؤ اجداد سے اپنی جائز وراثت" کا دعویٰ کیا کہ قدیم ہخامشنی سلطنت کے بحیرہ ایجین تک کے تمام علاقوں کو حاصل کیا گیا اور فارس کی حدود کو ان علاقون تک بحال کیا گیا۔ رومی جنہوں نے دجلہ کے مغرب میں تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا وہ جانتے تھے کہ اس نئی ساسانی سلطنت کے ساتھ مقابلہ ناگزیر تھا۔ (۱۸۴)

اس سے پہلے کہ یہ ’’مقابلہ‘‘ پوری شدت سے شروع ہو، اردشیر اول اور اس کے بیٹے شاپور اول نے اپنی فوجیں بین النہرین اور شام کی طرف روانہ کیں اور ۲۲۹عیسوی میں رومیوں کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ رومی شہنشاہ سکنندر سیویرس (دور حکومت ۲۲۲ تا ۲۳۵ عیسوی) نے اردشیر اول کو ایک خط بھیجا جس میں اس کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا تھا، لیکن اردشیر اول نے اسے نظر انداز کر دیا اور، توہین کرنے کے لیے، کیپاڈوشیا پر تصرف قائم کر لیا۔ سکندر سیویرس نے ایک بار پھر اردشیر اول کو اس کی سرزنش کرتے ہوئے لکھا اور اردشیر اول نے جواب میں ۴۰۰ مندوبین بھیجے جنہوں نے اس کے مطالبے کو دہرایا کہ روم ان علاقوں کو خالی کر دے جو ایک بار ہخاشمنی سلطنت کے زیر تصرف تھے اور انہیں ان کے حقییقی بادشاہ کو واپس کر دیں۔ سیویرس نے مندوبین کو گرفتار کر کے، ان کے ہتھیار اور کپڑے اتار کر، اور انہیں رومی کھیتوں پر غلاموں کے طور پر کام کرنے کی سزا سنائی۔ اس کے بعد اس نے فارس کے نئے بادشاہ کے ساتھ ہمیشہ کے لیے معاملہ کرنے کی ایک مہم چلائی۔

سیورس کی مہم

۲۳۱ عیسوی میں، سکندر سیویرس نے تین محاذوں پر اپنی جنگ شروع کی۔ پہلی رومی فوج آرمینیا سے ہوتی ہوئی شمال سے اردشیر تک پہنچی، دوسری جنوب سے بین النہرین سے ہوتی ہوئی اور تیسرا ان دونوں کے درمیان سے ساسانی دارالحکومت مدائن کی طرف آ نکلی۔ شمالی پیش قدمی نے کیپاڈوشیا کو واپس لے لیا اور آرمینیا کو تباہ و برباد کر دیا جبکہ جنوبی فوج نے مسلسل شمال کی طرف پیش قدمی کی اور مرکزمیں بھی کامیاب رہی، لیکن کسی بھی سپہ سالار کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اب تک، وہ ساسانی فوج کے صرف ایک حصے کا سامنا کر رہے تھے اور ابھی تک ان کے لشکر کے بڑے حصے کا سامنا کرنا باقی تھا جو کہ بھاری ہتھیاروں سے لیس اور اعلیٰ تربیت یافتہ گھڑسوار دستوں پر مشتمل تھا جن میں ساوارن مبارز بھی شامل تھے۔

Alexander Severus
سکندر سویرس
Carole Raddato (CC BY-SA)

رومی فوجوں کی پیش قدمی ۲۳۳عیسوی میں روک دی گئی جب سیویرس کی فوجوں کی مدائن کی جنگ میں ساسانی گھڑسوار فوج سے مڈبھیڑ ہوئی اور انہیں شکست فاش ہوئی۔ ساواران نیزہ بازی میں طاق تھے اور رومی پیادہ فوج کو چھوٹی شکلوں میں لے جاتے تھے جہاں وہ آسانی سے سوار ساسانی تیر اندازوں کے ذریعہ ان پر بار بار تیر برسا کر مارے جاتے تھے اورمحض واپسی اور دوبارہ حملہ کرنے کے لئے تیزی سے پیچھے ہٹ جاتے تھے۔

سیویرس کی تین جہتی حملے کی حکمت عملی آخر میں فریب خوردہ ثابت ہوئی کیونکہ، جیسا کہ فروخ نے واضح کیا، اردشیر کو یہ کرنا تھا کہ "رومن محوروں کی پیش قدمی کا مشاہدہ کریں اور پھر فیصلہ کریں کہ وہ اپنی زیادہ تر افواج کے ساتھ کہاں حملہ کرنے والا ہے"۔ (۱۸۵)۔ ایک واحد، بڑی، رومی فوج، آخر میں، ساسانیوں کی کم فوجوں کے خلاف کہیں زیادہ موثر ہوتی۔ سیویرس روم واپس آیا جہاں اس نے عظیم فتح کا اعلان کیا جب کہ اردشیر اول نے، جو اپنے دور حکومت کے اتنے سالوں کی انتخابی مہم سے تھکا ہوا تھا، اسے جانے کی اجازت دی اور مزید مہمات کی ذمہ داری اپنے بیٹے شاپور اول کو سونپ دی۔

منصوبہ جات کی تکمیل اور پالیسی

جدید دور کے متعدد محققین کے بیان کے مطابق اردشیر اول اور عام طور پر ساسانیوں کو ہمخامشی سلطنتکے بارے میں کوئی علم نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس کا زوال تقریباً ۵۰۰ سال قبل ہو چکا تھا اور اس بات کا کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے کہ ساسانیوں کے پاس پہلی فارس سلطنت کے بارے میں کوئی خاص معلومات تھیں۔ ۔ یہ دعویٰ اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ فارسی ثقافت زبانی روایت پر قائم ہے اور اس لیے یقیناً کوئی تحریری ثبوت نہیں ہوگا۔ فارسیوں نے داستان گوئی میں اپنی مہارت پر فخر کیا اور ہمخامشی سلطنت اور اس کے عظیم بادشاہوں کی تاریخ نسل در نسل داستان گو حضرات کے ذریعے منتقل ہوتی رہی۔

اردشیر اول نے زرتشتی پادریوں کو اپنے دربار میں زرتشتی مذہب کے مرکزی دستاویز-اویستا - کی تلاوت کے لیے مدعو کیا اور اس کی نقل بھی کروائی تھی۔


اردشیر اول کا ماضی کے بارے میں علم، ہمخامشی سلطنت تک پھیلا ہوا ہے، اس کا واضح ثبوت ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی مذہبی روایت کو تحریری طور پر محفوظ کرنے کی کوششوں میں موجود ہے۔ زرتشتی مذہب ایک زبانی کلامی عقیدہ تھا - اس میں قطعی طور پر کوئی تحریری صحیفے کا عمل دخل نہیں تھا - اور اس لیے اس عقیدے کو پادریوں نے برقرار رکھا جو آوستان کی قدیم زبان میں زرتشت کے احکام کی تلاوت کرتے تھے۔ پادریوں کی ہر نسل نے حفظ کی گئی آیات کو اگلی نسل تک منتقل کیا یہاں تک کہ اردشیر اول نے حکم دیا کہ انہیں لکھائی کا پابند ہونا چاہیے اور کاغذ کی نذر کیا جائے۔ اس سلسلے کو مکمل کرنے کے لیے، اس وقت موجود آرامی سے ایک مکمل طور پر نیا رسم الخط تیار کرنا پڑا تاکہ آوستان کی بولی جانے والی زبان کی گردان و تصریف اور درست تلفظ کو محفوظ رکھا جا سکے۔

اس کی کوشش اردشیر اول کے تحت شروع ہوئی تھی، جسے شاپور اول نے جاری رکھا، لیکن صرف شاپور دوم (دور حکومت ۳۰۹ تا ۳۷۹ عیسوی) اور خسرو اول (دور حکومت ۵۳۱ تا ۵۷۹ عیسوی) کے دور میں مکمل ہوا۔ اردشیر اول کے ماضی کو محفوظ کرنے کے نظریے نے اویستا کو وقت کے ساتھ تحلیل ہونے سے بچایا، خاص طور پر جب کوئی ساتویں صدی عیسوی کے مسلم عرب حملوں کے بعد ہونے والی زرتشتی مذہب کی بردہ داری پر غور کرتا ہے جب اسلام کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش میں بہت سے زرتشتی متون متن کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ اگر عقیدہ زبانی کلامی روایت بنی رہتی تو زرتشتی پادریوں کے قتل عام نے اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا ہوتا لیکن جیسا کہ یہ تھا، آوستا کو تحریری طور پر محفوظ کیا گیا اور یہ آج بھی زرتشت کے زندہ مذہب کا ایک لازمی حصہ ہے۔

بنیادی ذرائع سے یہ بات کافی حد تک واضح نظر آتی ہے کہ اردشیر اول اپنے لوگوں کی تاریخ کو اچھی طرح جانتا تھا اور اس نے اپنی سلطنت کے لیے بہترین کام کرنے والی چیزوں کو برقرار رکھ کر اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور دوسرے پہلوؤں کو ترک کر دیا، جو خود کو غیر موثر ثابت کر چکے تھے۔ ساسانی سلطنت کے سب سے زیادہ متاثر کن پہلوؤں میں سے ایک ہمیشہ ماضی کی بہترین چیزوں کو برقرار رکھنے، اس میں بہتری لانے، اور دیگر عناصر کو ترک کرنے کی سوچ اور نظریہ رہا ہے۔

انہی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، اردشیر اول نے تعمیراتی منصوبوں کا آغاز کیا جو تخت جمشید جیسے ہمخامشی شاہکار کی شان و شوکت کی عکاسی کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی محراب جیسی اشکانی اختراعات کا استعمال کرنے کا آدیش دیا۔ پارتھین فن تعمیر نے گولیت پر زور دیا – جس سے کاملیت اور استحکام کی رمز بندی ہوتی تھی– اور اردشیر اول کے کاموں نے اس روایت کو جاری رکھا۔ اس نے رومی فن تعمیر سے گنبد کا تصور بھی مستعار لیا لیکن، کسی عمارت کی چوٹی پر قائم گنبد کے بجائے، یہ زمین سے اوپر کی طرف بڑھتا ہے، جسے اکثر محراب کا سہارا حاصل ہوتی ہے۔ واضح طور پر اردشیر اول نے کون کون سے موجودہ کھنڈرات پر کام کروایا تھا جو آج تک موجود ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے بیٹے نے اپنا نقطہ نظر جاری رکھا اور ممکنہ طور پرمدائن میں تاج کسری عظیم محراب شاپور اول کے تحت اس کے والد کے نظریہ کی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔

Standing Arch at Ctesiphon
مدائن کی عظیم محراب
Nick Maroulis (CC BY-NC-ND)

اردشیر اول کے دورِ حکومت کی سب سے مشہور تعمیراتی اختراعات میں سے ایک مینار کی ترقی تھی، جس نے گنبد کے تصور کو بلندی تک پہنچایا۔ کسی عمارت کے اوپر ایک سادہ گنبد کے بجائے، مینار نے اپنی چوٹی سے اونچائی کو بڑھایا اور آرائش کے ذریعے عمارت کی عظمت میں اضافہ کیا۔ مشرق وسطی کے مینار، جو آج تقریباً مسلم عربی فن تعمیر کے مترادف ہیں، اصل میں فارسی تھے اور اردشیر اوّل کے دور حکومت کے زمانے کے تھے۔

اردشیر اول کے والد اور ممکنہ طور پر دادا دونوں زرتشتی اعلیٰ پادری رہ چکے ہیں جو کہ دیوتا احورا مزدا کے لیے وقف آتش کدہ جات کی دیکھ بھال کے ذمہ دار تھے۔ اردشیر اول نے اسی نسبت سے بغیر کسی جھجک کے زرتشتی مذہب کو ریاستی مذہب بنایا لیکن، مذہبی رواداری کی ہمخامشی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے، دوسرے مذاہب کو عبادت کرنے کی اجازت دی جیسا کہ وہ مناسب سمجھتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اردشیر اول اتنا روادار نہیں تھا جتنا شاید سائرس اعظم (ذوالقرنین) یا دارا اول جیسے ہمخامشی بادشاہوں میں تھا جیسا کہ کچھ شواہد موجود ہیں کہ غیر زرتشتیوں کو اردشیر اول کے عقیدے سے کم حقوق دیئے گئے تھے، لیکن یہ رجحان شاپور اول کے دور حکومت میں اس کے برعکس ہوگیا تھا،

اختتامیہ

اردشیر اول نے اپنے بیٹے کے ساتھ اپنے دور حکومت کے اختتام تک حکومت کی اور بالآخر ۲۴۰ عیسوی میں ذمہ داری پوری طرح سے اپنے جانشینوں کے سپرد کر دی۔ شاپور اول نےساسانی سلطنت کےشہنشاہ سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی، حالانکہ اردشیر اول کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ۲۴۱ عیسوی میں اپنی موت تک ریاست کے معاملات پر مشورہ دیتا رہا۔ اردشیر اول نے اپنے دور حکومت میں اس خطے کو متحد کیا تھا اور ایک سلطنت قائم کی تھی جو ۴۰۰ سال تک قائم رہے گی۔ فرخ لکھتے ہیں:

اپنے ۲۰سالہ دور حکومت کے دوران میں، اردشیر نے نہ صرف ساسانی طاقت کو مضبوط کیا بلکہ نئی ایرانی سلطنت کو تباہ کرنے کی رومن کوششوں کو ناکام بنانے میں کامیاب رہا۔ (۱۸۴)

اس کےنظریہ کو شاپور اول نے طول بخژا جس نے موافقت اور بہتری کے لیے فارسی ہنر کو مدنظر رکھتے ہوئے، مذہبی عدم برداشت کی طرف اپنے والد کے رجحان کو ترک کر دیا اور سائرس اعظم (ذوالقرنین) کے ہمخامشی نمونے کو مکمل طور پر قبول کیا۔ شاپور اول کے تحت تمام مذاہب کو آزادی سے عبادت کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا۔ شاپور اول، اپنے والد کی طرح، بھی ساسانی بادشاہوں میں سب سے بڑے مانے جاتے ہیں لیکن اس کے دورِ حکومت کی اطلاع سلطنت کے پہلے بادشاہ اور بانی نے دی تھی جس کی متاثر کن صلاحیتوں میں یہ دیکھنے کی صلاحیت شامل تھی کہ کیا کرنا ہے اور اس میں اس تصور کو حقیقت بنانے کے لیے درکار مہارت اور ہمت بھی موجود تھی۔

مترجم کے بارے میں

Zohaib Asif
جی میں زوہیب ہوں، زبان کا جادوگر اور ذہن کا مورخ۔ وقت کی چابی موڑنے والا، ماضی کے دریچوں میں جھانکنے والا الفاظ کا سنار۔ زبان اور تاریخ کے اس سفر پر میرا ساتھ ضرور دیجیے کیوں کہ اکھٹے ہم تاریخ کے سر بستہ رازوں سے پردہ ہٹائیں گے اور ساتھ ساتھ اٹھکیلیاں بھی کریں گے

مصنف کے بارے میں

Joshua J. Mark
ایک فری لانس لکھاری اورمارست کالج، نیو یارک کے سابقہ جزوقتی فلسفہ کے پروفیسر، جوشیا ج۔ مارک یونان اور جرمنی میں رہ چکے ہیں اور مصر کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے کالج کی سطح پر تاریخ، ادب، تصنیف و تالیف اور فلسفی کی تعلیم دی ہے۔

اس کام کا حوالہ دیں

اے پی اے اسٹائل

Mark, J. J. (2020, January 24). ارد شیر اول [Ardashir I]. (Z. Asif, مترجم). World History Encyclopedia. سے حاصل ہوا https://www.worldhistory.org/trans/ur/1-11948/

شکاگو سٹائل

Mark, Joshua J.. "ارد شیر اول." ترجمہ کردہ Zohaib Asif. World History Encyclopedia. آخری ترمیم January 24, 2020. https://www.worldhistory.org/trans/ur/1-11948/.

ایم ایل اے سٹائل

Mark, Joshua J.. "ارد شیر اول." ترجمہ کردہ Zohaib Asif. World History Encyclopedia. World History Encyclopedia, 24 Jan 2020. ویب. 26 Apr 2024.