قدیم رومی معاشرہ

آرٹیکل

Joshua J. Mark
کے ذریعہ، ترجمہ Samuel Inayat
دوسری زبانوں میں دستیاب: انگریزی, فرانسیسی, اطالوی, پرتگالی, ہسپانوی
آرٹیکل پرنٹ کریں PDF

روم اٹلی کے دریائے ٹِبر (Tiber) کے کِناروں پر ایک چھوٹَے سے شہر کے طور پر شروع ہُوا۔ اِس علاقے میں تقریباؐ 1000 سال قبل ازمسیح جو قبائل آباد تھے اُنہیں لاطِن یا لاطینی کہا جاتا تھا لیکن شہر کے آباد ہونے کا وقت 753 سال قبل از مسیح ہے۔ یہی وہ قبیلہ یعنی خاندان تھا جِسے رومی معاشرہ کی بُنیاد رکھنے کے سِلسلے میں مرکزی حثیت حاصِل تھی۔ اِسمیں باپ خاندان کا سربراہ تھا۔

روم، باپ کی ِجانب سے چلنے والا معاشرہ تھا (باپ کے خُون کی نِسبت سے وراثت) جِسمیں بہت سے اور دیوتاوؐں کے علاوہ گھوڑوں،گرج، بِجلی کی چمک، طُوفان اور آگ سے مُنسلک سُورج کے دیوتا جِسکا نام ڈیوس (Deus Pater, Father God) جِسے جیوپیٹر (Jupiter) بھی کہا جاتا تھا ، اُسکی پُوجا کی جاتی تھی۔ لاطینی کلچر میں دیوتاوؐں کے سِلسلے میں مادہ کی نِسبت نر دیوتا کو خصوصیات کے اعتبار سے سربراهی حثیت حاصِل تھی۔

Fresco, Pompeii
فریسکو، پومپی۔
Mary Harrsch (Photographed at the Museo Archaeologico Nazionale di Napoli) (CC BY-SA)

اِبتدائی دور سےباپ کی نِسبت سے چلنے والا معاشرہ جو (نا صِرف) جمہوریہ روم (509-27 قبل از مسیح) کے وقت تھا، مغرب میں سلطنتِ روم (27 قبل از مسیح - CE 476) بلکہ مشرق میں بھی (330- 1453) اُنھی خطوط پرقائم رہا۔ اگرچہ روایتی کہانی یہ ہے کہ ٹروجن (Trojan) کی ایک عورت جِسکا نام رومہ تھا جو اینیس (Aeneas) ہیرہ کے ساتھ سفر کر رہی تھی اُسنے روم دریافت کیا۔ اِس سے بھی زیادہ جانی جانے والی کہانی یہ ہے کہ اِس شہر کو روملس ( Romulus) جِسے دیوتا سمجھا جاتا تھا (753 قبل از مسیح) میں اُسنے اِسےاپنے بھائی کو قتل کرنے کے بعد دریافت کیا۔

اِس کہانی کا ایک حِصہ سیبائن کی ایک عورت کی عصمت دری کے بارے میں ہے۔ کہانی یہ بتاتی ہے کہ روم کے لوگ دُوسرے قبائل کی عورتوں کو اغوا کرتے تھے جیسے سیبائن (Sabine) کے لوگ۔ اِن قبائل نے اپنی ایک فوج تشکیل دی تا کہ وہ اپنی عورتوں کو واپس حاصل کر سکیں لیکن عورتوں میں سے ایک عورت جِسکا نام ہرسِلیہ (Hersilia) تھا وہ روملس کی بیوی بن گئی، اُس نےغیر ضروری خونریزی کو روکنے کے لیے دوسری عورتوں کو اکٹھا کیا اور رومیوں کے ساتھ رہنے پر اصرار کیا۔ مفروضه پر مبنی کہانی اِس بات کی نمائدگی کرتی ہے کہ عورت کا معاشرے میں ایک نمایاں کردار ہے کہ کیسے مخالف قبائل شادی کے ذریعے ایک دُوسرے کے ساتھ پُر امن طریقے سے رہ سکتے ہیں اور خاندانوں کو جوڑ سکتے ہیں۔

مستحکم خاندان ایک سخت سماجی درجہ بندی کے ڈھانچہ کے اہم جزو تھے جو جنس، شہریت، نسب اور مردم شماری پر بُنیاد کرتے تھے۔

طبقات اور تنازعات

خاندان کو رومی معاشرے کا نیوکلئس (Nucleus) سمجھا جاتا تھا جِسنے ہر طبقے کی بُنیاد رکھی۔ مستحکم خاندان ایک سخت سماجی درجہ بندی کے ڈھانچہ کے اہم جزو تھے جو جنس، شہریت، نسب اور مردم شماری پر بُنیاد کرتے تھے۔ (بُنیادی اصول یہ تھا کون کہاں رہتا تھا اور اُسکے پاس کِتنی زمیں تھی)۔ ایک شہری کو ابتدائی طور پر پندرہ سال سے زیادہ عمر کے کسی بھی مرد کو مرد کے طور پر بیان کیا گیا تھا جو لاطینیوں کے اصل تین قبائل میں سے ایک کا رکن تھا جس نے پھر سیاسی اور سماجی طور پر لوگوں کی زندگیوں پہ راج کیا۔

سیاسی طور پر، سب سے اوپر ایک لیڈر(راہنما) ہوتا تھا (جمہوریہ کے دوران قونصل، سلطنت کے دوران شہنشاہ)، سینیٹ، ججز اور اسمبلیاں جبکہ، سماجی طور پر، گھر کا سربراہ (پیٹر فیملیز Pater familias)، اس کی بیوی، بچے اور، بعض صورتوں میں، اس کا بڑھا ہوا خاندان (غیر شادی شدہ بہنیں، بیوہ مائیں، بوڑھے باپ)۔ ۔سرپرستی، دونوں شعبوں (سیاسی اور سماجی) اصولوں کے مطابق چلتی تھی۔ جو لوگ اقتدار میں تھے وہ اپنے سے نیچے والوں کی دیکھ بھال کرنے کے پابند تھے۔ قونصل، شہنشاہ، یا گھر کے سربراہ اپنی ضروریات بشمول والدین کی دیکھ بھال اپنے چارجز فراہم کرتے اور بدلے میں، ان کی وفاداری اور خدمت وصول کرتے تھے۔

Ancient Roman Society and Social Order
قدیم رومن سوسائٹی اور سوشل آرڈر
Simeon Netchev (CC BY-NC-ND)

معاشرے کو دو طبقوں میں تقسیم کیا گیا تھا - اعلیٰ طبقے کے پیٹریشین (Patricians) اور محنت کش طبقے کے پلیبیئنز (Plebeians) جن کی سماجی حیثیت اور حقوق کو قانون کے تحت جانبدارانه طور پر اعلیٰ طبقے کے حق میں بیان کیا گیا تھا جب تک ، Plebeians اور Patricians کے درمیان طاقت کی کشمکش کے پیشِ نظر ایک حُکم نامہ (c. 500-287 BCE) جاری نہ ہُوا ۔

احکامات کا تصادم اس وقت شروع ہوا جب رُومی پیٹریشین (Patricians) علاقے میں بالادستی کے لیے پڑوسی قبائل کے خلاف مہم چلا رہے تھے اور انہیں اپنی فوجوں کے لیے مردوں کی ضرورت تھی۔ 494 قبل از مسیح میں، پلیبئین، (Plebeians) جو لڑاکا فوج کا بڑا حصہ تھے، اُنھوں نے فوج میں اس وقت تک خدمات انجام دینے سے انکار کر دیا جب تک حکومت میں اُنکی شُنوائی نہ ہُوئی۔۔ ان کی شکایات کا ازالہ نئے قوانین کے ذریعے کیا گیا جس کی وجہ سے انہیں سینیٹ میں اپنا نمائندہ (ایک ٹریبیون) بھیجنے کی اجازت دی گئی اور 449 قبل از مسیح میں، بارہ ٹیبلز یعنی بارہ اصولوں یا ضابطوں کے ذریعے۔ روم کے قوانین جو عوامی طور پر سب کو دِکھانے کیلئے شائع کیے گئے اس بات کی ضمانت تھی کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

تنازعہ سے پہلے پلیبئین دُوسرے درجہ کے شہری تھے جِنہیں پیٹریشنز سے شادی کرنے کی اِجازت نہیں تھی۔ 445 قبل از مسیح کے بعد، اس قانون کو تبدیل کر دیا گیا۔ پلیبین جس کو بھی پسند کرتے تھے اس سے شادی کر سکتے تھے اور سیاست میں آوازبلند کر سکتے تھے۔ اُس وقت تک جب تک احکامات کا تنازعہ ختم ہوا، رومی معاشرے کی تعریف پانچ سماجی طبقات میں کی گئی۔

  • Patricians محب وطن
  • Equites اکوٹیز (سینٹرز سے نیچے کے عہدےدار)
  • Plebeians پلیبیئنز
  • Freedmen غُلامی سے آزاد ہُوئے لوگ
  • Slaves غُلام

اگرچہ پیٹریشین کو روایتی طور پر زمیندار اور پلیبین کو وہ لوگ پیش کیا گیا جِن کے پاس زمیں نہیں تھی۔ یہ ایک غلط فہمی ہے۔ پیٹریشین نے یقینی طور پر سینیٹ بنایا تھا اور وہ حکمران طبقہ تھا لیکن بہت سے طاقتور پلیبیئن خاندان بھی تھے۔ جیسے جیسے رومی تاریخ میں ترقی ہوئی، بہت سے پیٹریشین خاندانوں نے اپنی دولت اور مقام کھو دیا جبکہ پلیبیئن (Plebeian) خاندانوں کی قسمت میں ڈرامائی طور پر بہتری آئی۔ بنیادی طور پر، پیٹریشین (Patricians) اشرافیہ تھے۔ جو پیٹریشین پیدہ ہُوا وہ پیٹریشن ہی تھا جبکہ باقی سب پلیبیئن تھے۔ یہ ضروری نہیں کہ Plebeian غریب ہی تھے ۔ کسانوں، پلمبروں، کاریگروں، اساتذہ، ٹھیکیداروں، معماروں، اور بہت سے دوسرے معزز اور منافع بخش پیشوں کی نمایندگی پلیبیئن طبقے نے کی۔

Roman Toga, Tarragona
رومن ٹوگا، ٹاراگونا
Mark Cartwright (CC BY-NC-SA)

گھڑ سوار ( گھڑ سوار فوج) اصل میں شاہی سوار نائٹ (یعنی ہتھیاروں سے لیس سِپای) تھے جنہیں ابتدائی جمہوریہ کے دور میں اپنے گھوڑے کی خریداری اور دیکھ بھال کے لیے ایک خاص رقم دی جاتی تھی اور اس طرح وہ تجارت سے وابستہ ہو گئے۔ آخرکار وہ کاروبار سے متعلق اعلیٰ طبقے کا حصہ بن گئے۔ 218 قبل از مسیح میں، ایک قانون منظور کیا گیا جس میں سینیٹرز کو تجارت کرنے سے منع کیا گیا کیونکہ یہ ان کے قانون سازی کے فیصلوں سے سمجھوتہ بن سکتے تھے۔ equites افراد محب وطن طبقے کے مرد تھے، جو سماجی طور پر سینیٹر طبقے سے کمتر تھے، جو بینک چلاتے تھے، ٹیکس جمع کرتے تھے، سامان کی درآمد و برآمد کرتے تھے، اور گھروں کی تجارت کے ساتھ ساتھ غلاموں کی تجارت کا انتظام بھی کرتے تھے۔

آزاد ہُوئے (Freedmen) وہ غلام تھے جو اپنی آزادی خریدنے میں کامیاب ہو گئے تھے یا جن کے مالکان نے انہیں آزاد کر دیا تھا۔ آزاد ہونے والا مرد یا عورت بعد میں اپنے پہلے والے مالک یا مالکہ کیساتھ مالک اور نوکر کے رِشتہ کے نمونہ پر چلتے ہُوئے اُن کے موکل بن جاتے تھے۔۔ آزاد ہُوئےغلاموں کو شہریت تو دی جاتی لیکن سیاسی عہدہ نہیں رکھ سکتے تھے۔ تاہم آزاد ہونے والے غلاموں کے کسی بھی بچے کو بطور شہری مکمل حقوق دیئے گئے تھے۔ آزاد ہونے والے اپنی اہلیت کیمُطابق کوئی بھی کام کر سکتے تھے۔ لیکن اکثر غلام ہوتے ہوئے اپنے سابق آقا کے لیے جو بھی فرائض سرانجام دیتے تھے اسے نئے آقا کے ساتھ جاری رکھتے تھے۔

غلاموں کی بغاوتیں رومیوں کا ایک بارہماسی (لگا تار) خوف تھا جس کا احساس 73-71 قبل از مسیح کی اسپارٹیکس غلام بغاوت (Spartacus Slave Revolt) میں ہوا۔

غلام معاشرے کا سب سے نچلا طبقہ تھا جِن کے کوئی حقوق نہیں تھے اور انہیں آقا کی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔ ایک رُومی غلام کے طور پر زندگی کا معیار آقا کی مرضی اور کام کے اعتبار سے مختلف تھا۔ کانوں میں یا سڑکوں کی تعمیر میں زندگی هنرمند کاریگروں کے مقابلے میں کافی مشکل تھی جو کاریگروں کے لیے کام کرتے تھے یا اپنے آقاوؐں کی خِدمت بطور ٹیوٹر یا موسیقار کرتے تھے۔ غلام کی ذمہ داریاں کتنی ہی آسان لگتی ہوں، وہ اپنے آقا کی خواہشات کے تابع تھے جو انہیں کسی بھی وجہ سے مار پیٹ کر سکتا تھا بلکہ قتل بھی کر سکتا تھا۔

رُومی غُلاموں پر تمام کاموں میں اِنحصار کرتے تھے چاہے وہ اُنکی پسند کے نہ بھی ہوں۔ خواتین غلاموں نے اپنی زندگی کے ہر پہلو میں ،جیسے نہانے، کپڑے پہننے اور میک اپ کرنے سے لے کر بچوں کی پرورش، گھر کی صفائی اور خریداری جیسے معاملات تک اپنی مالکن کی خدمت کی۔ مرد غلاموں نے گھر کے مالک کی مُختلف نوعیت کے کاموں میں خدمت کی، بشمول ذاتی معاون، بچوں کے ٹیوٹر، ویٹر، بٹلر، باڈی گارڈ، جائیدادوں کا نگران، اور بہت سے دوسرے کام۔ ایک موقع پر، رومیوں نے ایک قانون کی تشکیل پر غور کیا جس میں غلاموں کو اپنی شناخت کے لیے ایک مخصوص وردی پہننے پر پابند کیا گیا لیکن انہوں نے اس کے خلاف فیصلہ کیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ یہ غلاموں کو متنبہ کر دے گا کہ وہ کتنے ہیں اور ممکنہ طور پر بغاوت کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ غلاموں کی بغاوتیں رومیوں کا ایک بارہماسی خوف تھا جس کا احساس 73-71 قبل از مسیح کی اسپارٹاکس غلام بغاوت میں ہوا جس نے رومیوں کو خوفزدہ کیا اور بعد میں برسوں تک انہیں پریشان کیا۔

Roman Slaves Relief Slab
رومن غلام ریلیف سلیب
Carole Raddato (CC BY-NC-SA)

زیادہ تر غلام غیر ملکی ہوتے تھے جو جنگ میں پکڑے گئے تھے یا اِنییں غُلام بنا لیا گیا تھا۔ لیکن کچھ رومیوں نے قرض کی ادائگی کیلئے خود کو یا اپنے بچوں کو غلامی میں بیچ دیا۔ پیٹریشین خاندانوں نے بعض اوقات ایک چھوٹے مخصوص علاقے میں یا دیگر جگہوں پر 1,000 غلاموں کو رکھا ہوا تھا۔ اِن غُلاموں نے مرکزی اِکائی کے ذریعے (خاندان) ریاست کے مفاد میں کام کیا ۔

خاندان

پیٹریشین (Patrician) خاندانوں کے بارے میں نچلے طبقے کے خاندانوں سے کہیں زیادہ دستاویزات موجود ہوتی تھیں پھر بھی دونوں کے لیے بنیادی نمونہ یکساں تھا۔ والد خاندان کا سربراہ تھا اور مالیات اور بچوں کی پرورش کے تمام فیصلے کرتا تھا۔ باپ اپنے بچوں پر عُمر بھر مکمل اِختیار رکھتا تھا، بلا اِمتیاز عُمر اور ازدواجی حیثیت کے۔ بیٹا اپنے والد سے رہائی کا مطالبہ کرنے کے لیے عدالت میں جا سکتا تھا اگر وہ ثابت کر سکے کہ اس کا باپ نااہل تھا یا واضح طور پر بیٹے کے بہترین مفادات کے خلاف کام کر رہا تھا۔ یہاں تک کہ باپ کو یہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل تھا کہ اس کے نوزائیدہ بچے کی پرورش گھر میں کرے یا یہ ذمہ داری نہ لے۔

بچے کی پیدائش گھرمیں دایہ یا مالکه کی غُلام کی زیرِ نِگرانی ہو، مرد بچے کی پیدائش کے موقع پر موجود نہ ہوتے تھے اگرچہ اُونچے درجہ کے لوگ کِسی پیچِدگی کی صُورت میں مرد معالج کو بُلا لیتے تھے۔ ایک بار جب بچہ پیدہ ہو جاتا اور اُسے صاف کر دیا جاتا تو پھراُسے فرش پر ایک کمبل میں لپیٹ کر رکھ دیا جاتا تھا اور بچے کے باپ کو بُلایا جاتا ۔ اس موقع پر، باپ بچے کو اٹھا سکتا تھا۔ اُسکا بچے کو اُٹحا لینا اِس بات کی نشاندہی کرتا تھا کہ اُسنے بچے کو قبول کر لیا ہے یا (نہ اُٹھانے کی صُورت میں) مُنہ موڑ لیا ہے۔

بچے کے ٹُھکرائے جانے کی صُورت میں بچے کو گلیوں میں مرنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ باپ بچے کو کِسی بھی صُورت میں رد کر سکتا تھا اور اُسکے رد کرنے پر کوئی بھی سوال اُٹھا نہیں سکتا تھا۔۔ یہ امکان ہے کہ بیٹوں کے مقابلے میں زیادہ بیٹیوں کو مسترد کر دیا جاتا تھا، کیونکہ بیٹوں کو خاندانی نام اور خوش قسمتی کو برقرار رکھنا ہوتا تھا، لیکن نوزائیدہ بچوں کو صرف اس لیے چھوڑا جا سکتا تھا کہ دوسرا بچہ گھر پر بہت زیادہ مالی بوجھ ڈالے گا اور خاص طور پر اگر کسی خاندان میں پہلے سے ہی ایک صحت مند بیٹا ہو، تو دوسرے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان لاوارث شیر خوار بچوں کو اکثر غلاموں کے تاجربچاتے تھے جو انہیں پالتے تھے اور غُلام بنا کر بیچ دیتے تھے۔

خواتین

خواتین زندگی بھر اپنے باپ کی مرضی کے تابع رہتیں تھیں اور شادی کے بعد بھی جبکہ ان کے پاس کوئی سیاسی آواز یا طاقت نہیں تھی۔ بیٹیوں کو یہ سکھایا جاتا تھا کہ کس طرح گھر کو سنبھالنا اور چلانا ہے، اپنے شوہر کا خیال رکھنا ہے اورکیسے اپنے پیشے کو آگے بڑھانا ہے۔ رومی جمہوریہ کے آخری دور میں، خواتین کو زیادہ حقوق حاصل ہوئے لیکن پھِر بھی وہ اپنے باپ اور شوہر کے تابع فرماں رہتی تھیں۔

The Intervention of the Sabine Women
سبین خواتین کی مداخلت
Jacques-Louis David (CC BY-SA)

اس کے باوجود، خواتین طلاق کے لیے درخواست دے سکتی تھیں، اسقاط حمل (مرد کی رضامندی سے) حاصل کر سکتی تھیں، وراثت میں حصہ لے سکتی تھیں، اِنتظام کر سکتی تھیں اور جائیداد فروخت کر سکتی تھیں، اور نچلے طبقے کی خواتین کاروبار چلا سکتی تھیں، دکانوں اور ریستورانوں میں کام کر سکتی تھیں، اور اپنے سامان جیسے زیورات، کپڑے اور سیرامکس بیچنے کے لیے اپنی دُکان چلا سکتی تھیں۔ عورتوں کا اپنے بچوں پر کوئی قانونی حق نہیں تھا اور طلاق کی صورت میں بچے خود بخود باپ کے پاس چلے جاتے تھے۔ جب ایک عورت تقریباً 15 سال کی عمر کو پہنچتی تھی، تو اس کے والد کو پہلے ہی اس کے لیے مناسب ساتھی مل جاتا تھا لیکن کچھ لڑکیوں کی منگنی اکثر بڑی عمر کے مردوں سے ابتدائی عمر میں ہی کر دی جاتی تھی ۔

شادی

شادی آجکل کے تسلییم شُدہ طریقہ سے نہیں ہوتی تھی ۔قانونی طور پر شادی دو رُومی شہریوں کی رضامندی ہی سے ہو سکتی تھی لیکن "رضامندی" شاید ہمیشہ آزادانہ طور پر نہیں دی جاتی تھی۔ اگر ایک باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کا اہتمام کرتا بھی تو وہ ناقابلِ یقین حد تک نرم ہو۔ بچے سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ اس کے ساتھ مُتفق ہو گا چاہے وہ پسند نہ بھی کرے۔

شادی کی تقریبات عام طور پر طلوع آفتاب کے فوراً بعد ہوتی تھیں، جو کہ نئی زندگی کی علامت تھی جس کا آغاز جوڑا شروع کر رہا تھا۔ مذہبی پیشوا کے موجود ہونے کے باوجود بھی وہ شادی ک رسم کو قانونی شکل دینے کیلئے مُکمل نہیں کرسکتا تھا جب تک دس گواه موجود نہ ہوں۔ دُلہن ایک روایتی منت پڑھتی اور اُسکے بعد دُلہا اور دُلہن کی راهنمائی میں شادی کی پارٹی ایک عظیم دعوت میں شریک ہوتے اور پھر بعد میں وہ جوڑے کی راہنمائی میں اُنکے نئے گھر جاتے یا دُلہا کے باپ کے گھر۔

دلہن، جیسے چلتی تھی وہ روحوں کے لیے وقف ایک سکہ گِراتی (شادی میں اس کے مستقبل کے راستے پر خُوش قِسمتی کیلئے) اور اپنے نئے شوہر کو دو سکے دیتی، ایک اس کی ذاتی عزت کرنے کے لیے اور دوسرا اس کے گھر کی روحوں کا احترام کرنے کے لیے۔ اکٹھے چلتے چلتے وہ گِری میوے اور مِٹھائی مجمع میں پھینکتے اور ان کے پیچھے آنے والےلوگ بھی ویسے ہی پھینکتے جاتے جب تک وہ دُلہا کے گھر پہنچ نہ جاتے۔ (اس رسم کو آجکل بھی شادیوں کے موقع پر چاول پھینک کر یاد کیا جاتا ہے)۔

Roman Copper As
رومن کاپر ایس
Mark Cartwright (CC BY-NC-SA)

وہاں پہنچنے کے بعد، دولہا اپنی دلہن کو اندر لے جانے کے لیے دہلیز پر اٹھاتا ۔ ہرالڈ جانسٹن (Harold W. Johnston) سبین خواتین کی عصمت دری کی کہانی کا حوالہ دیتے ہوئےتجویز کرتا ہے کہ یہ "گرفتاری کے ذریعے شادی کی ایک اور بقا" ہوسکتی ہے ( 79 Nardo) ۔اِس فعل کا مقصد دُلہن کو لڑکھرانے اور گِرنے سے روکنا بھی ہو سکتا تھا۔ ( برا شگون) یا زیادہ امکان ہے کہ یہ ایک علامتی اشارہ تھا جو اسے اس کی پرانی زندگی سے ہٹا کر اسے آسانی سے اپنی نئی زندگی میں لے جا رہا تھا۔ اس کے بعد قریبی دوستوں اور کنبہ والوں کو گھر میں مدعو کیا گیا جہاں شوہر نے اپنی نئی بیوی کو گھر کے ضروری عناصر کے طور پر آگ اور پانی پیش کیا اور اس نے چولہا میں پہلی دفعہ آگ جلائی۔ اس کے بعد، نئے جوڑے کے رات آرام کرنے تک مزید دعوتیں ہوتی تھیں۔

گھر اور خاندان

قانونی طور پر لڑکی کی شادی کے لیے کم از کم عمر 12سال اور لڑکے کے لیے 15 سال تھی لیکن زیادہ تر مردوں نے 26 سال کی عُمر تک شادی کی۔۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مردوں کو 15-25 سال کی عمر کے درمیان ذہنی طور پر غیر متوازن سمجھا جاتا تھا۔ ان کے بارے میں سوچا جاتا تھا کہ وہ مکمل طور پر اپنے جذبات پر حکمرانی کرتے ہیں اور صحیح فیصلے کرنے سے قاصر ہیں۔ لڑکیوں کو ابتدائی عمر میں بہت زیادہ بالغ سمجھا جاتا تھا (جدید دور میں ایک تسلیم شدہ حقیقت) اور اسی طرح وہ شادی کی ذمہ داریوں کے لیے تیار ہوتی تھیں کہ وہ اکثر دولہا سے چھوٹی ہوتی تھیں۔

شادی کا مرکزی مقصد ایسے بچے پیدا کرنا اور ان کی پرورش کرنا تھا جو معاشرے کے ذمہ دار اورپیداواری رُکن ہوں۔ چونکہ سماجی درجہ بندی کیمُطابق مردوں کا غلبہ تھا، اس لیے گھر کی توجہ زیادہ تر پہلے پیدا ہونے والے بیٹے پر مرکوز ہوتی تھی۔ لڑکے کی پیدائش کے نو دن بعد ( لڑکی کے لیے آٹھ دن) بچے کو پاک کرنے کی تقریب میں ایک نام دیا جاتا تھا جسے Lustratio کہا جاتا تھا اور اسے بری روحوں سے بچنے کے لیے ایک تعویذ دیا جاتا تھا۔۔ لڑکوں کے تعویذ کو بُلا (bulla) کہا جاتا تھا جبکہ لڑکیوں کے تعویذ کو لونولا (Lunula) کہا جاتا تھا۔ یہ چیزیں سیسہ یا کپڑے سے بنی ہوتی تھیں اور امیر گھروں میں یہ سونے سے بنی ہوتی تھیں۔

15 سال کی عمر تک پہنچنے پر(عُمر کی بابت) تقریب مُنعقد ہوتی تھی اور اُنہیں شہری تصور کیا جاتا تھا، تب تک وہ بُلا پہنتے تھے۔ لڑکیاں شادی سے کُچھ ہی دیر پہلے تک لونولا پہنتی تھیں۔ تب وہ اپنے بچپن کے کھلونوں اور کپڑوں کو پہننا بند کر دیتی تھیں اور خواتین کے کپڑے اور دیگر لوازمات پہننا شروع کر دیتی تھیں۔۔ لڑکے کی پرورش اس کے والد کا کاروبار سیکھنے کے لیے کی گئی ہو گی اور اگر وہ (درجہ بندی کے اعتبار سے) پیٹریشن ہے یا ایکیڑز ہے تو پھِر وہ یہ سیکھے گا کہ گھڑ سواری کیسے کرنی ہے یا شکاریا لڑائی کیسے کرنی ہے۔ رومی جمہوریہ کے زمانے میں فوجی سروس لازمی تھی اور اس لیے ہر مرد کو جنگی ہنر سکھایا جاتا تھا قطع نظر طبقے کے، جب کہ سلطنت کے دوران فوجی خدمت رضاکارانہ تھی۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے، لڑکیوں کی پرورش بیوی اور ماں بننے کے لیے کی گئی تھی اور اگرچہ رومی تاریخ میں طاقتور خواتین کی قابل ذکر مثالیں موجود ہیں، لیکن یہ بھی شادی شدہ خواتین تھیں جن کے بچے تھے۔

Roman Ivory Doll
رومن آئیوری گڑیا
Mark Cartwright (CC BY-NC-SA)

ہو سکتا ہےکہ گھر پر باپ کی حکومت رہی ہو لیکن اسے ماں نے ہر سطح پر سنبھال رکھا تھا اور اس میں اسے امن اور ہم آہنگی کا گہوارہ بنانا بھی شامل تھا۔ اگرچہ گھر کا ہر فرد دیوتاؤں اور روحوں کو خوش کرنے کے لیے ذمہ دار تھا، لیکن یہ بنیادی طور پر گھر کی عورت کے ذمہ تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ گھریلو روحوں کی روزانہ عزت کی جائے۔ ان رُوحوں میں پین اور پینیٹس (Panes and Penates)(پینٹری اور کچن کی روح) اور جینیئس (genius گھر کے سربراہ کی مردانگی کی روح) شامل تھے۔ لارس ( آباؤ اجداد کی روحیں) اور خاندان کی روحوں کو پیرنٹالیا (Parentalia) کے تہوار کے ذریعےمنایا جاتا تھا۔ مینز ( manes مرنے والوں کی اجتماعی روح) اور لیمورز ( lemures غصے بھرے مردہ) کی روحوں کو عِزت دینے کیلئے لیموریا نام کا فرقہ وارانہ تہوار منایا جاتا تھا۔

مذہب اور ریاست

مذہب نے ہر گھر، برادری او ریاست کو آگاہ کیا۔ ریاست نے یکساں مذہبی عقیدے کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی اور یکساں مذهبی رسومات نے ریاست کو بااختیار بنایا۔ سال بھر میں دیوتاؤں کی یاد منانے والے تہوار ہوتے تھے، ماضی کے عظیم کام دیوتاؤں سے جڑے ہوئے تھے، اور فصل کی کٹائی خُدا کی مُحافظت سے جُڑی ہُوئی تھی۔۔ رُومی ففروضہ کیمُطابق گھر کے سربرہ کی سالگرہ (Genius of the household) یعنی گھر اور اُسمیں رہنے والوں سے متعلق روح کو عِزت دینے کے لئے منائی جاتی تھی۔ جس نے والد کو یہ پہچاننے کے قابل بنایا کہ کسی بھی صورت حال میں کیا کرنے کی ضرورت ہے اور اسے کرنے کیلئے طاقت اور صلاحیت کیسے حاصل کرنی ہے۔ گھر میں روزانہ کی رسومات جس میں پین اور پینیٹس کی تعظیم کی جاتی تھی اور ریاستی اداروں میں بھی اِسکی گونج سُنائی دیتی تھی۔ جس کی مثال ویسٹل کنواریوں کے کردار اور چولہا، گھر اور خاندان کی دیوی کی مقدس آگ سے ملتی ہے۔ (Vestal virgins) خاندان کی دیوی تھی۔

رومی کیلنڈر کا سب سے بڑا تہوار Saturnalia تھا، جو زراعت کا دیوتا یعنی بیج بوائی اور فصل کی کٹائی کا دیوتا، Saturn کے احترام میں ۔منایا جاتا تھا، بعض ادوار میں یہ 17-23 دسمبرکے دوران منایا جاتا تھا اور اِس دوران ہر قِسم کا کام روک دیا جاتا تھا، کاروبار بند ہو جاتے اور رسومات معطل ہو جاتی تھیں۔ سال کا یہ واحد موقع ہوتا تھا جب گھر کا سربراہ ذمہ داری سے دستبردار ہو جاتا تھا اور گھر کا ایک جونیئر رکن ذمہ داری سنبھال لیتا تھا۔ تمام قوانین اور رسومات میں نرمی کی جاتی، غلاموں کو برابری کی بُنیاد پر تہواروں میں شامل ہونے کی اجازت دی جاتی۔ تمام قوانین اور رسومات میں نرمی کی جاتی، غلاموں کو تہواروں میں مساوی طور پر شامل ہونے کی اجازت دی جاتی۔ رسوماتی اِجتماعات نے (اہمیت کے پیشِ نظر) کونسل کے اجلاسوں، اسمبلیوں اور بلڈنگ پراجیکٹ پلاننگ بورڈز کی جگہ لے لی۔

لوگ رنگ برنگ کپڑے پہنتے، اپنے گھووں کو پھولوں ، چادروں اور سیرامِکس کے مجسموں سے سجاتے، دوستوں اور کنبہ والوں کو دعوتوں اور مشروبات کے لیے مدعو کرتے، جب کہ فرقہ وارانہ تقریبات میں آس پڑوس سے ہر ایک کا خیر مقدم کرتے۔ تحائف کا تبادلہ کرتے۔ عام طور پر زحل کے نام سے چھوٹے چھوٹے مُجسموں کو شامل کرتے اِس نظریہ کے تحت کہ تمام اچھے تحائف زحل نے عطا کیے۔۔ اگلے دن ہر کوئی تہواروں سے فارغ ہو کر اپنی معمول کی زندگی میں واپس چلے جاتا۔

Saturnalia ظاہر ہے، جدید دور کے کرسمس کے جشن کا قدیم پیش خیمہ تھا۔ عُلما عام طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ یسوع مسیح غالباً موسم بہار میں پیدا ہوا تھا لیکن چرچ نے، مُلہدین کی مقبول منائی جانے والی عام تعطیلات کومسیحی رنگ دیتے ہُوئے ، 25 دسمبر کو مسیح کی پیدائش کا جشن منانے کے لیے منتخب کیا تا که Saturnalia کو ان کی اپنی تعطیل سے بدل دیا جائے۔ سال بھر کے تمام مذہبی تہواروں میں Saturnalia ہی صِرف سب سے زیادہ مقبول تہوار تھا۔ اِن اقدامات نے، رومی معاشرے میں ریاست کے سربراہ کے ساتھ رومی لوگوں کے مربوط خاندان کے سربراہ کی طرح ایک اکائی کے طور پر ایک ساتھ باندھنے کا کام کیا ۔

سوالات اور جوابات

مترجم کے بارے میں

Samuel Inayat
I began my professional career in July 1975 by joining a government service in scale 10 and continued till I retired in June 2013 in scale 17 after rendering 40 years unblemished service. Most of my service was as a Civil Servant.

مصنف کے بارے میں

Joshua J. Mark
ایک فری لانس لکھاری اورمارست کالج، نیو یارک کے سابقہ جزوقتی فلسفہ کے پروفیسر، جوشیا ج۔ مارک یونان اور جرمنی میں رہ چکے ہیں اور مصر کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے کالج کی سطح پر تاریخ، ادب، تصنیف و تالیف اور فلسفی کی تعلیم دی ہے۔

اس کام کا حوالہ دیں

اے پی اے اسٹائل

Mark, J. J. (2019, October 23). قدیم رومی معاشرہ [Ancient Roman Society]. (S. Inayat, مترجم). World History Encyclopedia. سے حاصل ہوا https://www.worldhistory.org/trans/ur/2-1463/

شکاگو سٹائل

Mark, Joshua J.. "قدیم رومی معاشرہ." ترجمہ کردہ Samuel Inayat. World History Encyclopedia. آخری ترمیم October 23, 2019. https://www.worldhistory.org/trans/ur/2-1463/.

ایم ایل اے سٹائل

Mark, Joshua J.. "قدیم رومی معاشرہ." ترجمہ کردہ Samuel Inayat. World History Encyclopedia. World History Encyclopedia, 23 Oct 2019, https://www.worldhistory.org/article/1463/ancient-roman-society/. ویب. 29 Jul 2025.

اشتہارات ہٹائیں