تاثریت

تعریف

Mark Cartwright
کے ذریعہ، ترجمہ Zohaib Asif
20 May 2022 پر شائع ہوا 20 May 2022
دوسری زبانوں میں دستیاب: انگریزی, ڈچ, فرانسیسی, فارسی, ہسپانوی
آرٹیکل پرنٹ کریں
Monet Painting in His Studio Boat by Manet (by Neue Pinakothek, Munich, Public Domain)
مونے کو اپنے سٹوڈیو میں مصوری کرتے ہوئے دکھاتی ہوئے مانے کی تصویر
Neue Pinakothek, Munich (Public Domain)

تاثریت یا ارتسامیت مصوری، ادب اور فن کی ایک تحریک تھی جو انیسوی صدی کی آخری سہ ماہی کے عرصے میں پیرس میں شروع ہوئی۔ اس تحریک کے پیروکاروں نے رنگوں اور شکلوں پر روشنی کے لمحاتی اثرات کو گرفت میں لینے کی کوشش کی، اکثر بیرونی ماحول اور کھلی فضا میں مصوری کے شاہکار تخلیق کیا کرتے تھے۔ وہ کیفے، تھیٹر اور پیرس کی شاہراہوں میں مناظر اور عصری روزمرہ کی زندگی کو اپنی مصوری میں مقید کرنے کے لیے اکثر موٹی اور کثیف تہہ کے ساتھ روشن رنگوں کا استعمال کرتے تھے۔

تاثریت یا امپریشنزم اصطلاح کا استعمال

'تاثریت' یا ۔امپریشنزم۔ کی اصطلاح ایک مفید لیکن مبہم نام یا لیبل ہے، جسے ۱۸۶۰ کی دہائی کے فنکاروں کے ایک طبقے پر لاگو کیا جا سکتا ہے جو فرانس، خاص طور پر پیرس میں مصوری کے جوہر دکھا رہے ہین۔ اس کی اختراع نقاد لوئی لیروئے نے اپریل ۱۸۷۴ میں پیرس میں پہلی امپریشنسٹ یا تاثریت کے نمونوں کی نمائش میں کلاڈ مونے (۱۸۴۰ تا ۱۹۲۶) کی مصوری کے ایک شاہکار کے بنظر غائر جائزہ لینے پر کی ۔ اس تصویر کا عنوان امپریشن، سنرائز (اثر شفق) تھا اور اس میں شہر لے آو شہر کی صنعتی بندرگاہ کا نظارہ پیش کیا گیا ہے اور ساتھ ہی نارنجی سورج کی منظر کشی کی گئی ہے جو ارغوانی رنگ کے پانیوں میں جھلکتا ہے۔ لیروئے اور دیگر ناقدین نے پھر 'تاثریت' کی اصطلاح کو نمائش میں موجود بہت سے فنی نمونوں پر لاگو کیا جن کی وضع نہایت مبہم تھی اور جن میں برش کی بہت واضح حرکات تھیں۔

تاثریت میں استعمال کیے جانے والے رنگوں اور مرکزی نقاط، خیال، مضمون اور موضوع کے لیے ایک نیا نقطہ نظر، ایک نیا اور روشن انداز فکر تھا جس نے مصوری میں ایک نئی شاہراہ کی بنیاد رکھی۔

اس پیش قدمی کے بعد، ابتدا میں، 'تاثریت' کی اصطلاح ایک تضحیک آمیز اصطلاح تھی جسے کچھ قدامت پسند ناقدین فن نے اس نئے طریق کا مذاق اڑانے اور تمسخر کرنے کے لیے استعمال کیا۔ تاہم، اس تحریک کے پیروکاروں کی فہرست میں شامل فنکاروں (یا ان میں سے زیادہ تر) نے جلد ہی اس اصطلاح کو اپنایا اور خود کو اور اپنی آزاد نمائشوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا اور انہیں اس اصطلاح کے ساتھ منسوب کر دیا، اور عمومی طور پر وہ ناقدین کے بیانات سے بے نیاز تھے، حتی کہ اگر کوئی بھی اس اصطلاح سے قطعی طور پر متفق نہ ہوتا تب بھی اس کا استعمال متواتر جاری رہتا۔ 'تاثریت' آج بھی ایک مفید عمومی نقش، علامت اور لیبل تصور کی جاتی ہے، اور یہ یقینی طور پر اس ضروری چیز کا احاطہ کرتی ہے جسے فنکار اپنے شاہکار کے حلقہ موضوعات میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، اور وہ ضروری چیز کیا تھی؟ وہ فطرت اور قدرت کی من و عن اور بے کم و کاست تصویری منظر نگاری کے بجائے روشنی اور رنگوں کے لمحاتی اثرات ہیں (تصاویر ۱۸۲۰ کی دہائی سے مقبول ہونا شروع ہوئیں )۔ وہ حقیقت کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے، یا زیادہ واضح طور پر، حقیقت کے بارے میں ان کا اپنا انفرادی تاثر جو ان کے جائزے اور مشاہدے نے پیدا کیا تھا۔

Impression, Sunrise by Monet
اپریسش، سنرائز (اثر شفق) از مونے
Musée Marmottan (Public Domain)

ایک اصطلاح کے طور پر 'تاثریت' کی بھی اپنی حدود ہیں۔ کب، کس انداز، اور کس فنپارے پر اس اصطلاح کا اطلاق کیا جا سکتا ہے اس پر ماہرین فن بڑی لمبی چوڑی بحث میں بارہا الجھتے رہے ہیں۔ جن فنکاروں کو تاثر پرست کہا جاتا ہے ان کا اسلوب ایک دوسرے سے اکثر بالکل مختلف تھا۔ مثال کے طور پر پیئر-آگوست رینوآر (۱۸۴۱ تا ۱۹۱۹)، ایڈگر ڈیگا (۱۸۳۴ تا ۱۹۱۷)، ایڈوارڈ مانی (۱۸۳۲ تا ۱۸۸۳)، اور گستاف کائی باٹ (۱۸۴۸ تا ۱۸۹۶) جیسے مصور، اکثر شکل اور ساخت اور برش کو غیر واضح اور ہلکے ہاتھ پر استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ یہ مونے، الفریڈ سیسلی (۱۸۳۹ تا ۱۸۹۹)، کیملی پسارو (۱۸۳۰ تا ۱۹۰۳)، اور پال سیزانا (۱۸۳۹ تا ۱۹۰۶) جیسے فنکاروں کے تیار کردہ دھندلے اثرات کے برعکس ہے۔ تمام فنکار روایتی انداز میں پینٹ کر سکتے تھے جیسا کہ ان کے پہلے فن پاروں میں دکھایا گیا ہے، لیکن کچھ یقینی طور پر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ 'تاثر پرست' تھے۔

Image Gallery

50 Impressionist Paintings that Changed Art Forever

From the 1860s, a group of young avant-garde artists in Paris forged an entirely new style of painting, one that came to be known as impressionism...

اس اصطلاح کے استعمال کو مزید پیچیدہ کرنے کے لیے، تاثر پسندی میں استعمال کیے جانے والے رنگوں اور مضامین کے لیے ایک نیا نقطہ نظر بھی شامل ہے۔ اکثر استعمال ہونے والے تیز رنگوں والے مصوری کے تختے (پیلیٹ) روایتی مصوری سے بہت مختلف ہوتے تھے لیکن دوسری طرف، کچھ تاثر پرست فنکاروں نے جان بوجھ کر زیادہ پھیکے، ماند اور دھیمے رنگوں کا استعمال کیا۔ خالص رنگوں کا استعمال بھی ایک اور خصوصیت تھی۔ اس تحریک ک علمبرداروں نے روزمرہ کی زندگی، غریب طبقے اور مناظر کی تصویر کشی میں اپنی دلچسپی ظاہر کی، لیکن ایک بار پھر، ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا تھا۔ اس سب کے علاوہ تصویر تیار کرنے کے عمل کا ایک اور اہم عنصر اس تصویر کے مرکزی مفعول یا خیال کو کھلی فضا میں مصور کرنا تھا (این پلین ایئر؛ بیرون ور) جو کہ تیار شدہ رنگ پر مشتمل سر بمہر سفری ٹن ٹیوب کی ایجاد بدولت ممکن ہو پایا تھا (اس سے قبل، اپنے روغن خود پیسنا پڑتے تھے)۔ لیکن پھرایک اور تفریق دیکھنے میں نظر آتی ہے۔ وہ ایسے کہ کچھ فنکاروں نے صرف اپنے ذاتی مصور خانے اور سٹوڈیو میں کام جاری رکھنے کو ترجیح دی، اور یہاں تک کہ بیرون ور مصوری کے سب سے پر عزم اور متمنی حامیوں نے پھر بھی مصور خانے میں واپس اپنے کینوس اور تختہ مصوری کو مکمل طور پر شامل کیا۔ مختصراً، 'تاثریت' کا مطلب ۱۸۶۰ کی دہائی سے لے کر انیسویں صدی کے آخر تک پیدا ہونے والا فن ہے جس نے روایتی فنون لطیفہ کے طریق اور رسوم و رواج کی بیخ کنی کی، اور ایک ایسی چنوتی پیش کی جسے مختلف فنکاروں نے مختلف انداز میں رنگ چڑھایا۔

تاثریتی انداز تھا کیا؟

تاثراتی انداز کے الگ الگ عناصر کا خلاصہ اس طرح کیا جا سکتا ہے:

  • کسی خاص موضوع پر روشنی اور رنگ کے عارضی اثرات کا تصویر میں احاطی کرنے کےفعل میں دلچسپی
  • روشن اور کثیر الاقسام رنگوں کا استعمال جو پہلے بھی کسی حد تک ہو چکا ہو۔
  • اپنے وجود میں بذات خود ایک اثر کے طور پر مختلف شکلوں کو برش کی واضح حرکات سے ظاہر کرنے کا عمل
  • کسی مفعول یا موضوع کی ایک جدید نوع پر تخلیق کرنے کا عمل جس میں اکثر مخلتلف کرداروں اور فنن تعمیر کے نمونوں پر دَفعتًہ اور اچانک کاری ضرب لگانا جس سے ان کا سلسلہ اور بہاﺅ ٹوٹ جائے
  • نقطہ نظر اور حقیقت کا ایک جدید چہرہ جس کے تحت اکثر جان بوجھ کر حقیقت اور فطرت کو ایک غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور اس کے ڈھکے ہوئے پہلوﺅں کا احاطہ کیا جاتا ہے۔
  • افسانوی اور مذہبی موضوعات کے برخلاف عصری اور موجودہ روزمرہ زندگی اور تمام طبقوں کے لوگوں پر توجہ مرکوز کرنا
  • تیزی سے بدلتی ہوئی روشنی کو بہتر طور پر احاطہ کے لیے بیرون ور مصوری۔

یہ تمام خصوصیات فن کے ایک ہی نمونے میں بیک وقت موجود نہیں ہوسکتی ہیں۔

بالکل کسی دوسرے فنی انداز اور فنی طریق کی طرح، تاثر پرستی کی ایک ٹھوس بنیاد تھی۔ امپریشنسٹ فنکاروں کو ان کے کچھ عمدہ فن پیشرووں سے متاثر کیا گیا جیسے ولیم ٹرنر (۱۷۷۵ تا ۱۸۵۱) جو کہ اپنے مبہم انداز کے لیے مشہور و معروف ہیں، یوجین ڈیلاکروئے (۱۷۹۸ تا ۱۸۶۳) جو کہ چمکدار رنگوں کے استعمال کے لئے جانے جاتے ہیں، اور گسٹاف کوربیٹ (۱۸۱۹ تا ۱۸۷۷) جو فنپاروں میں رنگوں کی ایک کثیف تہہ استعمال کرنے کی روایت کے موجد ہیں

Hyde Park by Pissarro
ہائیڈ پارک از پکاسو
Tokyo Fuji Art Museum (Public Domain)

اس تحریک کے مقلدین نے ان مختلف نظریات کو ایک ہی اسلوب اور ڈھنگ میں مجتمع کیا اور ایک دوسرے کو بھی متاثر کیا، اس گروہ میں موجود دوستوں کو مختلف انداز، مضامین، خیالات اور پیلیٹوں کو اپنے فنی نمونوں میں استعمال کرنے کی ترغیب دی۔ اکثر ایسے مواقع ہوتے تھے جہاں دو یا دو سے زیادہ فنکاروں نے مشترکہ طور پر کام کیا ہو، یہاں تک کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی منظر اور خیال کی تصویر کشی کی، جیسا کہ کئی مواقع پر رینوآر اور مونے یا سیزانا اور پسارو یک جا ہو کر اپنے تخلیقی جواہر کا اظہار کرتے تھے۔ زیادہ تر فنکاروں نے بھی اپنے آہنگ کو ایک نئی سمت عطا کی۔ پسارو کو پوائنٹلزم یا تقابلیت ایک آنکھ نہ بھاتی تھی(ذیل میں ملاحظہ ہو)، ڈیگا نے فن کے حوالے سے متبادل نقطہ نظر کو اپنایا، کائی بوٹ نے ایک خاص عرصے کے لیے اپنی پہچان برش کی ہموار حرکات اور سٹروکس کو ترک کر دیا، اور سیزانا کا کام مزید تجریدی ہوتا گیا اور اس کی شکلیں زیادہ ہندسی ہوتی گئیں۔ مونے یقینی طور پر اپنی زندگی میں ہی اس تحریک کا سب سے مشہورمعتقد تصور کیا جاتا تھا، لیکن سیزانا نے ایک بار تبصرہ کیا کہ پیسارو "پہلا تاثر پرست" تھا (شائکس، ۷۸)۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ تاثراتی انداز کا ڈول کس نے ڈالا کیوں کہ در حقیقت اس کی جڑیں کئی مصوروں کے فنی خامہ جات اور مو قلموں سے بیک وقت پھوٹیں۔ اس کے علاوہ، یقیناً، غیر فرانسیسی فنکار بھی اسی طرح فن کے حوالے سے نئے رویہ جات کو اپنا رہے تھے۔

تاثریت کے پیرو اور حامی

جنہیں ہم آج تاثریت کے ابتدائی مقلدین قرار دیتے ہیں وہ در اصل ہم خیال اختراعی اور فن کے حوالے سے انقلابی فنکاروں کا ایک گروہ تھا جو پیرس کے ان ہی کیفے اور ریستوراں میں اکثر مل بیٹھتے اور مجالس کا انعقاد کرتے۔ نئے اراکین، بشمول غیر فرانسیسی مصور، کسے رکن کے حوالے سے اس حلقے کا حصہ بنتے گئ اور اس طرح یہ گروہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے حجم میں بڑھتا گیا۔ بہت سے فنکار بھی فرانس کے جنوب یا برٹنی جیسیے مقامات پر ایک نئی روح کو اپنے وجود میں سمونے کے لیے کہیں دور نکل گئے۔ اس گروہ میں دو خواتین فنکار شامل تھیں، بیخت موریزو (۱۸۴۱ تا ۱۸۹۵) اور میری کساٹ (۱۸۴۴ تا ۱۹۲۶)، اور یہ ایک ایسا اس دور تھا جب اس پیشے کا انتخاب ایک خاتون کے لیے انتہائی غیر روایتی تھا۔

Mont Saint-Victoire by Cézanne
موں سینٹ وکٹوئڑ از سیزانا
The Courtauld Institute of Art (Public Domain)

اس اسلوب کو اپنانے والے زیادہ تر مصورین نے روایتی فن کی پاٹھشالاوں اور درسگاہوں میں قابل احترام اور عظیم فنکاروں کی سرپرستی میں فن کی تعلیم حاصل کی تھی، لیکن انہوں نے اپنے اساتذہ کی روش کو ترک کر دیا۔ اپنی اختراعی فطرت سے تخلیق ہونے والے کام کو فنون لطیفہ کے محض ایک پہلو کے علاوہ اجاگر اور واضح کرنے کے عزم نے ان فنکاروں کو مجبور کیا کہ وہ ۱۸۷۴ تا ۱۸۸۶ کے عرصے میں پیرس تاثراتی نمائشون کا انعقاد کریں، ۔ ان نمائشوں نے فن کے ناقدین کی ایک اچھی تعداد کو مشتعل کیا اور وہ چیں بجبیں ہوئے۔ مزید یہ کہ ان کی فروخت بھی کچھ زیادہ نہیں ہوئی تھی، لیکن کم از کم اس تحریک کے علمبرداروں کو عام جنتا کی جانب سے خاصی توجہ حاصل ہوئی۔ ڈیگا اور کائی بوٹ جیسے فنکاروں کی طرح چندے معدودے فنکاروں کے ذریعہ آمدنی معقول تھے، لیکن مونے اور رینوآر جیسے دیگر فن کار اپنے فن کو ہی اپنا مستقل ذریعہ معاش بنانے پر مجبور تھے اور در حقیقت انہیں روٹیوں کے بھی لالے تھے (اور ان مین مصوری کرنے کی ہمت بھی وقت کے ساتھ ساتھ رفت ہو رہی تھی)۔ خوش قسمتی سے، امیر فنکار اکثر اپنے غریب اور تنگ دست ساتھیوں کی مدد کرتے تھے، ان کی تصاویر اور فن پارے خریدتے تھے اور موقع پر ان کا کرایہ بھی ادا کرتے تھے۔ وکٹر شوقے (۱۸۲۱ تا ۱۸۹۱) اور ڈاکٹر پال گاشے (۱۸۲۸ تا ۱۹۰۹) جیسے فنی نوادرات اکٹھے کرنے والوں کی ایک چھوٹی سی تعداد بھی تھی جن کی بصیرت ان فنی نمونونں کی ایک گراں مایہ ثقافتی قدر کو پہچانتی تھی اور یہ جانتی تھی کہ اس وقت نہ سہی لیکن مستقبل میں ان فن پاروں کی اہمیت کس قدر مسلم ہوگی۔ اور وقت نے ثابت کیا کہ وہ کس قدر درست تھے۔ یہ اس خاص فنی اسلوب جسے ہم تاثریتی فن کہتے ہیں کی بد نصیبی ہے کہ اس فنی اثر کے تحت جنم لینے والے نمونے آج کروڑوں ڈالروں میں بکتے ہیں، ان کے خالقین کے پاس اپنے خیالات کو رنگوں کا جامہ پہنانے کے لیے رنگ اور کینوس خریندے کی مالی سقت بھی نہ تھی

Sower with Setting Sun by van Gogh
ڈوبتے سورج کا ساتھی از وین گوغ
Kröller-Müller Museum (Public Domain)

نو تاثریتی فن کے پیروکار

جس طرح تاثر پسندوں نے روایتی آرٹ کے رسوم و رواج کی عمارت کو پارہ پارہ کیا اور ریگزار بنایا، بالکل اسی طرح فنکاروں کی ایک نوجوان نسل بھی سامنے آئی جس نے تاثریت کے آہنگ کو ایک آہنی ضرب لگائی۔ سب سے پہلے، یورژ سورا (۱۸۵۹ تا ۱۸۹۱) اور پال سینیٗک (۱۸۶۳ تا ۱۹۳۵) جیسے فنکاروں نے پوائنٹلزم یا تقابلیت کے فن کے شجر کا بیج بویا، جس کے مطابق رنگ چھوٹے چھوٹے نقطوں میں اور رنگوں کے طیف اور روشنی کے اثرات کے سائنسی نظریات کے مطابق کینوس پر استعمال کیا جاتا تھا۔ پھر، ۱۸۸۰ کی دہائی کے وسط سے، ونسنٹ وین گوغ (۱۸۵۳ تا ۱۸۹۰) اور پال گوگاں (۱۸۴۸ تا ۱۹۰۳) جیسے فنکار اپنے رنگوں کے استعمال میں اور بھی باغی ہو گئے۔ انہوں نے جان بوجھ کر متضاد لیکن تکمیلی رنگوں (جیسے نیلے اور پیلے یا سرخ اور سبز) اور ڈرامائی اثر کے لیے گاڑھا سیاہ خاکہ استعمال کیا۔ انہوں نے 'غلط' جگہوں پر 'غلط' رنگوں کا استعمال کیا، جان بوجھ کر ناظرین کو وہ دکھایا جو وہ حقیقت میں نہیں دیکھ سکتے تھے (مثلاً کیسری آسمان یا سبز جلد)۔ نو-تاثریت کے پیروکاروں کی ایک اور خصوصیت ناظرین کی طرف سے جذباتی ردعمل کو بھڑکانے کے لیے ان کے کاموں میں علامتوں کا استعمال تھا۔ تصاویر تشریح اور سمجھ کے لحاظ سے زیادہ پیچیدہ ہوتی جا رہی تھیں ۔ اس خیال کو بیسویں صدی میں ہنری ماتیس (۱۸۶۹ تا ۱۹۵۴) اور پابلو پکاسو (۱۸۸۱ تا ۱۹۷۳) جیسے فنکاروں کے ذریعہ اور بھی بڑھایا گیا تاکہ فن محض قائم شدہ روایات کو موڑنے یا توڑنے کا معاملہ نہ ہو بلکہ انہیں یکسر ترک کر دیا جانے کا معاملہ ہو۔

سوالات اور جوابات

اپریشنزم کی وضاحت کن الفاظ میں کی جا سکتی ہے؟

اپریشزنم کو ایک ایسے فنی آہنگ کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے جہاں روشنی اور رنگ کے لمحاتی اثرات کا احاطہ کرنے کے لیے مناظر کو مدھم شکل دی جاتی ہے۔ برش کی حرکات اور اسٹروکس اکثر زیادہ واضح ہوتے ہیں، مضامین عصری ہوتے ہیں، اور فنکار اکثر بیروں ور یعنی کھلی فضا میں مصوری کرتے ہیں۔

اپریشنزم کی اصطلاح کا اجرا کب اور کیسے ہوا؟

اصطلاح 'امپریشنزم' کی اصل ۱۸۷۴ میں کلاڈ مونے کی ایک پینٹنگ "امپریشن، سن رائز" (اثر شفق) کا لوئی لیرائے کا تنقیدی جائزہ ہے۔ اس کے بعد ناقدین نے اس اصطلاح کا استعمال اس وقت پیرس میں موجود انقلابی فنکاروں کے لیے کیا۔

اپریشنزم کی پانچ خصوصیات کون کون سی ہیں؟

تاثریت کی ۵ خصوصیات ہیں: مبہم شکلیں، چمکدار رنگ، واضح برش اسٹروکس اور حرکات، روزمرہ کے عصری مضامین، اور تصویر کو اسٹوڈیو میں تیار نہیں کیا جاتا ہے بلکہ کھلی فضا میں تیار کیا جاتا ہے۔

امپریشنزم کا بانی کون ہے؟

تاثریت کی ایجاد کسی ایک فنکار نے نہیں کی تھی بلکہ انیسویں صدی کے فرانس میں انقلابی اور غیر رواینی شاہراہ پر گزیں فنکاروں کے ایک گروہ کے کاموں اور سوچ کے ذریعے اس کے سوتے پھوٹے۔ تاثریت کے اہم فنکاروں میں کلاڈ مونیے، پیئر-آگوسٹ رینوآں، کیملی پسارو، پال سیزانا، ایڈگر ڈیگا اور بیخت موریزو تھے۔

مترجم کے بارے میں

Zohaib Asif
جی میں زوہیب ہوں، زبان کا جادوگر اور ذہن کا مورخ۔ وقت کی چابی موڑنے والا، ماضی کے دریچوں میں جھانکنے والا الفاظ کا سنار۔ زبان اور تاریخ کے اس سفر پر میرا ساتھ ضرور دیجیے کیوں کہ اکھٹے ہم تاریخ کے سر بستہ رازوں سے پردہ ہٹائیں گے اور ساتھ ساتھ اٹھکیلیاں بھی کریں گے

مصنف کے بارے میں

Mark Cartwright
مارک اٹلی کا ایک تاریخ پر لکھنے والی لکھاری ہے۔ ان کی دلچسپی کا مرکز کوزہ گری، فن تعمیر، عالمی اساطیری روایات اور ایسے خیالات تلاش کرنا ہے جو کہ مخلتلف تہذیبوں میں ایک جیسے ہیں۔ ان کی سیاسی فلسفہ میں ماسٹر ڈگری ہے اور وہ گھروں کے عالمی دائرۃ المعارف میں طباعت کے ڈائریکٹر ہیں۔

اس کام کا حوالہ دیں

اے پی اے اسٹائل

Cartwright, M. (2022, May 20). تاثریت [Impressionism]. (Z. Asif, مترجم). World History Encyclopedia. سے حاصل ہوا https://www.worldhistory.org/trans/ur/1-20628/

شکاگو سٹائل

Cartwright, Mark. "تاثریت." ترجمہ کردہ Zohaib Asif. World History Encyclopedia. آخری ترمیم May 20, 2022. https://www.worldhistory.org/trans/ur/1-20628/.

ایم ایل اے سٹائل

Cartwright, Mark. "تاثریت." ترجمہ کردہ Zohaib Asif. World History Encyclopedia. World History Encyclopedia, 20 May 2022. ویب. 10 Oct 2024.