قدیم برطانیہ

تعریف

Joshua J. Mark
کے ذریعہ، ترجمہ Samuel Inayat
دوسری زبانوں میں دستیاب: انگریزی, فرانسیسی, اطالوی, ہسپانوی, ترکی, یوکرائن
آرٹیکل پرنٹ کریں PDF
Roman Rule in Britain c. 43 - 410 CE (by Simeon Netchev, CC BY-NC-ND)
برطانیہ میں رومن حکمرانی c. 43 - 410 عیسوی
Simeon Netchev (CC BY-NC-ND)

قدیم برطانیہ، براعظم یورپ کے شمال مغرب میں ایک زمینی علاقہ تھا جس پر سب سے پہلے انسان نےتقریباؐ 800,000 سال پہلے آبادکاری کی (اور اِسکے بعد) تقریباؐ 6000 سال قبل مسیح سیلاب کی وجہ سے یہی علاقہ زمینی علاقے سے الگ ہو گیا۔ تقریباؐ 4200 سال قبل مسیح زراعت شروع ہُوئی جو تہذیب کی ترقی کا سبب بنی۔

اس علاقے میں انسانوں کے ابتدائی شواہد 800,000-700,000 سال پہلے کے دورانیہ کے ہیں۔ Neanderthals (انسان نُما قدیم انسان) تقریباؐ 400,000 سال پہلے اور تقریباؐ 12,000 سال پہلے Homo sapiens نمودار ہوئے۔ زِندگی بذریعہ شکار معاشرہ تقریباؐ 4,200 سال قبل مسیح نوولتھک دور کا ہے (Neolithic Period پتھر کا اِختتامی زمانہ جِس میں زراعت شروح ہُوئی)۔ ان لوگوں کی روزمرہ کی زندگی صرف آثار قدیمہ کے شواہد سے معلوم ہوتی ہے کیونکہ کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے۔ تقریباؐ 2500 سال قبل مسیح بیل بیکر کلچر (Bell Beaker Culture) کے دورانیہ میں لوگوں کی ہجرت کی وجہ سے ثقافتی اصولوں میں تبدیلی رُونُما ہُوئی جیسا کہ سرامکس (ceramics) سے ظاہرہوتا ہے اور بعد میں Celtic migration.

بحیرہ روم کی دنیا کو فونیشین تاجروں (Phoenician traders بحیرہ روم پر لُبنان کے ارد گِرد کا علاقہ) کی رپورٹوں کے ذریعے جانا جاتا تھا جو وہاں باقاعدگی سے سفر کرتے تھے۔'برطانیہ' کے تعلق سے پہلا تحریری تذکرہ 325 قبل مسیح میں آن دی اوشن (On the Ocean) سے ظاہر ہوتا ہے (آن دی اوشن سمُندری سفر قدیم یُونانی شہر Massalia، فرانس سے تعلق رکھنے والا یُونانی متلاشی Pytheas سے مُتعلق ہے)۔ 43 عیسوی میں رومیوں کی فتح تک برطانیہ کے اندرونی علاقوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ 410 عیسوی میں رومیوں کے جانے کے بعد اینگلو سیکسن جیسے لوگ پہنچے جنہوں نے برطانوی لوگوں کے سماجی ڈھانچے، مذہب اور ثقافت کو متاثر کیا۔

طرزِ زِندگی کا یہ نمونہ 793 میں وائکنگز کی آمد، حملہ آوروں کے جواب میں اینگلو سیکسن سلطنتوں Anglo-Saxon kingdoms کے عروج اور 1066 میں انگلستان پر نارمن کی فتح کے ساتھ جاری رہا۔ کیونکہ قدیم برطانیہ اِن مرحلوں سے گُزرا، مورخین اِسے 'آخر قدیم' ('Late Antiquity') کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ دور بڑھتا ہُوا تقریباؐ 1500CE تک کا ہے۔

تحریری ریکارڈ سے پہلے کا برطانیہ

نولیتھک دور میں میگالتھک یادگاروں، مقبروں اور مقامات کے نشانات دیکھے گئے جنہیں مندروں سے تعبیر کیا گیا ہے۔

وہ خطہ جو 'برطانیہ' کے نام سے جانا جائے گا وہ جدید دور کی یونائیٹڈ کنگڈم آف اسکاٹ لینڈ، ویلز اور برطانیہ کا جنوبی علاقہ ہے (شمالی آئرلینڈ کو چھوڑ کر) اور یہ پیلیولتھک دور (Paleolithic Period قدیم پتھر کا دور تقریباؐ 3.3 مِلین سے 12000 سال پہلے) میں براعظم یورپ سے منسلک تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہومینیڈس (hominids) تقریباؐ 600,000 سال پہلے آئے اور پھر Neanderthals تقریباؐ 400,000 سال پہلے آئے تھے۔ آگ hominids کے زمانے سے پہلے ہی دریافت ہو چکی تھی جس سے غاروں کی رہائش گاہوں کو روشن کیا گیا اور چولہے جلے۔ ایسا لگتا ہے کہ نینڈرتھلوں Neanderthals نے اوزاروں کی تیاری میں ترقی کی اور گرماہٹ یا کھانا پکانے کے لیے آگ کا استعمال بھی کیا۔ نینڈرتھل (Neanderthals) ثقافت میں بعد کی تہذیب کے بہت سے پہلو شامل تھے جن میں مقامی اور دُور کے مُقامات سے تجارت، قبر کا سامان، ٹیکسٹائل کی پیداوار اور آرٹ شامل ہیں۔

ہومو سیپینز(Homo sapiens) یورپ میں 50,000 سال پہلے نمودار ہوتے ہیں جبکہ برطانیہ میں تقریباؐ 12,000 سال پہلے۔ بعد میں یہ علاقے برطانیہ اور Albion یعنی اسکاٹ لینڈ کے نام سے جزیرے بن گئے۔ 6000 سال قبل مسیح میں ناروے میں سونامی کی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ ہُوئی جِس سے جنوب مشرقی نشیبی علاقہ انگلش چینل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ زیر آب علاقہ (جسے جدید اسکالرز نے ڈوگر لینڈ کہا ہے)، حالیہ مطالعات (2020) کے مطابق، ہو سکتا ہے کہ ابتدائی طور پر کئی جزیروں میں تبدیل ہو گیا ہو، اس سے پہلے کہ سمندر کی سطح بڑھنے سے وہ بھی ڈوب جائیں، جو برطانیہ ہجرت کرنے والوں کو یورپ کے باقی حصوں سے الگ کر دیں۔

شکار پر گُزارا کرنے والی آبادیاں خانہ بدوش یا نیم خانہ بدوش زندگی گزار رہی تھیں۔ 4200 قبل مسیح نوولیتھک دور کے دوران گُزر و اوقات کا طریقہ زراعت اور مستقل بستیوں کی طرف منتقل ہوا۔ اس دور میں میگا لیتھک یادگاروں (کھڑے پتھروں سے بنی ہُوئی)، مقبروں اور مقامات کے نشانات دیکھے گئے جنہیں مندروں سے تعبیر کیا گیا ہے، جس میں اسٹون ہینج (Stonehenge) کو سب سے زیادہ جانا جاتا ہے، جس کی تاریخ تقریباؐ 3000-2400 قبل مسیح کے درمیان ہے۔ کانسی کا دور برطانیہ میں تقریباؐ 2500-2100 قبل مسیح میں شروع ہوا۔ جب کانسی کی اشیاء آثار قدیمہ کے ریکارڈ میں ظاہر ہونے لگیں اور تقریباً اسی وقت بیل بیکر کلچر (Bell Beaker Culture) کے لوگ نمودار ہوئے۔

Stonehenge
سٹونہیج
Jan van der Crabben (Copyright)

بیل بیکر کے لوگ (یہ نام سرامکس سے بنائی گئی اشیا کے نام سے رکھا گیا ہے) سمندر کے راستے یورپ سے برطانیہ ہجرت کر گئے، لیکن اِسکی وجہ کوئی نہیں جانتا کہ کیوں؟۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے فرد کو زیادہ اہمیت دی جیسا کہ ان کے سرامکس پر سجاوٹ اور قبر کے سامان پر استعمال ہونے والی اشیاء کی اقسام سے ظاہر ہوتا ہے جس میں میت سے مُتعلق ہتھیار شامل تھے۔ سیلٹس (Celts) خطے میں تقریباؐ 900 قبل مسیح پہنچے اور 600 قبل مسیح تک پہاڑی قلعے کے نام سے مشہور فن تعمیر مکمل کر لیا گیا تھا۔ پہاڑی قلعے غالباً قدرتی وسائل سے بھی زیادہ قبائلی یا کم از کم فرقہ وارانہ/علاقائی، شناخت اور مختلف بستیوں کے درمیان تنازعات کا اشارہ کرتے ہیں۔

رابطہ بذریعہ بحیرہ روم

کارتھیج (شمالی افریقہ کا شہر جو موجودہ تیونس کے گِرد و نواح میں ہے) کے فونیشین (فونیشین کے لوگ جو کارتھیج میں آباد ہُوئے) تقریباؐ 450 قبل مسیح میں برطانیہ کے لوگوں سے مِلے جب ہملکو (Himilco) کی قیادت میں ایک مہم کانسی بنانے کے لیے درکار ٹن (tin دھات) کی تجارت کے لیے وہاں پہنچی۔فونیشین ساحلی لوگوں کے ساتھ تجارت کرتے تھے اور یونانیوں تک برطانیہ کی خبریں لانے والے پہلے لوگ تھے، جن کے ساتھ وہ تجارت بھی کرتے تھے۔ 325 قبل مسیح میں، پائتھیس (Pytheas) نے برطانیہ کی ساحلی پٹی کی کھوج کی اور وہ پہلا شخص تھا جس نے اس جزیرے کا نام 'برطانیہ' (Bretannike) رکھا جس کا مطلب ہے 'پینٹ' اورلوگوں کا خود سےمصوری کرنے (یا ٹیٹو بنانے) کا رواج۔ لوگوں کے لیے اجتماعی طور پراِس نے بریٹنز (Britons) کا نام دیا (پریتانی، جو کہ برٹانی بن گیا)۔

Pytheas
پیتھیاس
Jeanne Menjoulet (CC BY)

Pytheas کا کام، On the Ocean، اب موجود نہیں ہے لیکن بعد کے مصنفین نے اس کا بار بار حوالہ دیا۔ اسکالر بیری کنلف (Barry Cunliffe) نے نوٹ کیا:

Pytheas کا بچ جانے والا مواد برٹنی، برٹش آئلز (جزیرے)، اور بحیرہ شمالی کے مشرقی ساحلوں کی ابتدائی تفصیل ہیں- یہ شمال مغربی یورپی تاریخ کے آغازکے بارے میں بتاتے ہیں اور برطانویوں کو اپنے آباؤ اجداد کی پہلی جھلک ملتی ہے۔ (viii)

برطانیہ کے یہ آباؤ اجداد 20 سے زیادہ مختلف قبائل تھے اور ان میں Atrebates اور Catuvellauni شامل تھے، جو دونوں برطانیہ کے مستقبل میں اہم کردار ادا کریں گے، جیسا کہ Iceni اور بہت سے دوسرے روم کے ساتھ باہمی تعلقات کے ذریعے کریں گے۔

رومی برطانیہ

رومی، برطانیہ کے بارے میں، چوتھی صدی قبل مسیح سے فونیشین اور یونانی تاجروں کے ذریعے جانتے تھے لیکن ان کا برطانویوں سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں تھا جب تک کہ جولیس سیزر (Julius Caesar رُومی حُکمران) نے 55 قبل مسیح میں گال (Gaul مغربی یورپ کے سیلٹ قبائل) سے چینل کو عبور نہیں کیا۔ سیزر کے پاس محاصرے کے لئے خاطر خواہ اِنتظام نہیں تھا کیونکہ اس کے بحری جہازوں کو (چینل کو)عبُور کرنے کیوجہ سے نقصان پہنچا تھا۔ اس لیے وہ کسی بڑی مُہم کے لیے تیار نہیں تھا اور پیچھے ہٹ گیا۔ وہ 54 قبل مسیح میں واپس آیا اور کچھ قبائل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے، خاص طور پر اٹریبیٹس اور کیٹوویلاونی (Atrebates and Catuvellauni)۔

آگسٹس کے پہلے منصوبوں کو اہمیت دیتے ہوئے اور ویریکا کو بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، کلاڈیئس نے 43 عیسوی میں برطانیہ کے خلاف ایک بڑی حملہ آور فوج بھیجی۔

روم نے تجارتی حقوق کے بدلے دوسروں کے ساتھ تنازعات میں ان قبائل کی حمایت کی، لیکن رومی حکومت کو ان کی فلاح و بہبود میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ (دلچسپی) صرف تجارت کے لیے طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے میں تھی۔ رومی شہنشاہ آگسٹس ( r. 27 BCE تا 14 CE ) جِسکا پُورا نام Gaius Julius Caesar Augustus تھا، نے برطانیہ کو فتح کرنے اور وسائل پر قبضہ کرنے کی مہمات پر غور کیا لیکن اپنے منصوبوں پر کبھی عمل نہیں کیا۔ 40 عیسوی کے اوائل میں، اٹریبیٹس (Atrebates) کے بادشاہ ویریکا کو کیراٹاکس Caratacus نے شکست دی جو کیٹوویلاونی Catuvellauni جنوب مشرقی برطانیہ کا قبیلہ تھا۔ (اِس وجہ سے) ویریکا روم سے مدد مانگنے کیلئے برطانیہ سے فرار ہو گیا۔ ( ویریکا رُومی حکومت کیلئے موکل برطانوی بادشاہ تھا)۔ Caligula جو(r. 37-41 CE) رُومی شہہنشاہ تھا نے Atrebates کے خلاف ایک فوج کو متحرک کیا لیکن حملہ شروع کرنے میں ناکام رہا۔ اِس لئے ، رُومی شہنشاہ کلاڈیئس (r. 41-54 CE) نے آگسٹس کے پہلے منصوبوں کواہمیت دیتے ہوئے اور ویریکا کو بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، 43 عیسوی میں جنرل الوس (Aulus) کے زیر کمان برطانیہ کے خلاف ایک بڑی حملہ آور فوج بھیجی۔

Catuvellauni نے جنوبی برطانیہ میں، غالباً جدید دور کے کینٹ کے قریب، جنگِ میڈوے (Battle of Medway) میں حملہ آورفوج کا سامنا کیا اور اسے شکست ہوئی۔ پھر رومی افواج دوسرے قبائل کو زیر کرنے اور برطانیہ کو رومی سلطنت کے کنٹرول میں لانے کے لیے الگ الگ کمانڈروں کے تحت مختلف سمتوں میں تقسیم ہو گئیں۔ کیمولوڈونم (کولچسٹرColchester)، ایبوراکم (یارک York)، لنڈم کالونیا (لنکن Lincoln)، ویرولیمیم (سینٹ البانس St. Albans)، اور لنڈینیئم (لندن London) سمیت شہر تیزی سے قائم کیے گئے۔ کولچسٹر49 عیسوی میں رومن کالونیا (Roman colonia) کا درجہ دیا جانے والا پہلا شہر تھا۔

فتح کا راستہ ہموار نہیں تھا، تاہم، کیراٹاکس نے 51 عیسوی میں اپنی شکست اور قبضہ تک رومی حملہ آوروں کے خلاف قبائل کو بار بار اکٹھا کیا۔ دوسرے قبائل نے روم کے خلاف مزاحمت جاری رکھی، لیکن سب سے زیادہ مشہور نیرو بادشاہ (54-68 عیسوی) کے دور حکومت میں 60/61 عیسوی میں آئسینی کی ملکہ بوڈیکا (Boudicca, queen of the Iceni) کی بغاوت تھی۔ بوڈیکا آئسینی بادشاہ پرسوتاگس (Prasutagus) کی بیوی تھی، جو روم کا ایک حلیف تھا، جس نے اپنی جائداد کو اپنی بیٹیوں اور نیرو (Nero) کے درمیان تقسیم کیا۔ جب وہ مر گیا، روم نے اس کی وراثتی تقسیم کا احترام کرنے سے انکار کر دیا۔ جب بوڈیکا نے اعتراض کیا، تو اسے کوڑے مارے گئے اور اس کی دو بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی۔

بوڈیکا نے آئسینی (Iceni) اور دیگر قبائل کو روم کے خلاف اکٹھا کیا، کولچسٹر، سینٹ البانس، اور لونڈینیئم کے شہروں کو تباہ کر دیا، اس سے پہلے کہ وہ 61 عیسوی میں واٹلنگ سٹریٹ کی لڑائی (Battle of Watling Street) میں رومی گورنر گائس سویٹونیئس پولینس (Gaius Suetonius Paulinus) کے ہاتھوں شکست کھا گئی۔ تاہم، رومیوں کی اس فتح نے مزاحمت ختم نہیں کی، اور جنرل ایگریکولا (Agricola) نے فتح کو جاری رکھا، جنگ کو شمال کے پکٹس تک پہنچایا (رُومی دورِ حکومت میں سکاٹ لینڈ کے لوگوں کو پکٹ زبان بولنے کی وجہ سے Picts کہتے تھے) اور 83 عیسوی میں مونس گروپیئس کی لڑائی میں (Battle of Mons Graupius) انہیں شکست دی۔ جنگ کے بعد ایگریکولا کو روم واپس بلایا گیا۔ کسی دوسرے جنرل کو رومن برطانیہ کی شمالی سرحد کو بڑھانے میں کوئی دیرپا کامیابی 122 عیسوی میں ہیڈرین کی دیوار(Hadrian's Wall شہنشاہ ہیڈرین کے دور میں بنائی جانے والی حِفاظتی دیوار) کی وجہ سے نہیں ملی۔

Briton Woman Warrior
برطانوی خاتون جنگجو
The Creative Assembly (Copyright)

برطانوی، خاص طور پر وہ لوگ تھے جو رُومی لوگوں کی تجارت اور اُنکے افسر شاہی عہدوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے، انہوں نے لونڈینیئم (Londinium) جیسے شہروں میں رومن لباس، ثقافت اور زبان کو اپنایا – جو ایک انتظامی دارالحکومت بن گیا – اور سڑکوں، آبی گزرگاہوں، عوامی پارکوں اور عمارتوں، مندروں، فورمز، میدانوں اور رومن حماموں جیسے رومی اقدامات کو پسند کیا۔

برطانیہ کا صوبہ رومی سلطنت کے لیے ایک اہم وسیلہ بن گیا اگرچہ ساحل کے ساتھ بندرگاہوں والا جزیرہ ہونے کی وجہ سے پُورے چینل پر اِسے سیکسن قزاقوں اور گال (Gaul) سے نِکلے ہُوئے فرینکس کے بحری جہازوں کے چھاپوں کا خطرہ تھا۔ سمندر کے راستے سیکسن اور فرینکش کے چھاپوں اور شمال سے پِکٹس (Picts) کی طرف سے دراندازیوں نے روم کے برطانیہ پر قبضہ کرنے کے عزم کو کمزور کر دیا، اور ویزگوتھس کے ایلریک (Alaric of the Visigoths اُس وقت کا ویسگاتھ کا علاقہ اب جرمنی اور ہنگری میں ہے، اِسکا پہلا بادشاہ الیریک-۱ تھا) کے ذریعہ 410 عیسوی میں سلطنتِ روم کے زوال کے بعد، روم نے اپنے وسائل کو قریب سے اکِٹھے کرنا شروع کیا۔ شہنشاہ ویلنٹینین (r. 364-375 CE Valentinian-1) نے پہلے ہی برطانیہ میں رومن فوجیوں کی موجودگی کو کم کر دیا تھا لیکن 410 CE میں رومی شہنشاہ Honorius نے جزیرے سے رومی فوج کو مکمل طور پر واپس بُلا لیا، اور برطانوی منتظمین سے کہا کہ اب وہ اپنی حفاظت خُود کریں۔

اینگلو-سیکسن برطانیہ

رومیوں کی طرف سے جو خلا چھوڑا گیا تھا اسے سیکسن (Saxons) تارکین سے پُر کیا گیا جنہوں نے 429 تک برطانیہ میں مستقل آبادیاں قائم کر لیں۔ ان لوگوں کو اینگلو-سیکسن کہا جانے لگا تاکہ براعظم پر رہنے والوں سے فرق کیا جا سکے۔ وہ دراصل سیکسنز، اینگلز اور جوٹس (Saxons, Angles, and Jutes پانچویں صدی تک جرمنی سے آئے ہُوئے لوگ) کا ایک متنوع گروہ تھے۔ برطانیہ میں ان کے آنے کو مورخ گلڈاس ( Gildas l. 500-570 ) نے بڑے پیمانے کا حملہ سمجھا اور اِسی بیانیے کو بیڈے ( Bede l. 672-735) اور نیننیس (Nennius l نویں صدی) جِیسے مورخین نے بھی دہرایا جبکہ اِن کے بعد کے مورخیں نے اِس بیانیے کو رد کر دیا۔

اِس کہانی کا سب سے مشہور بیانیہ جو گِلڈاس نے دیا ہے وہ یہ ہے کہ برطانوی لوگوں نے روم سے پِکٹس کے حملوں کے خلاف فوجی مدد کی درخواست کی اور جب انہیں بتایا گیا کہ کوئی مدد نہیں آ رہی ہے، تو انہوں نے سیکسنز کو ان کے اتحادیوں کے ساتھ یعنی اینگلز اور جوٹس کو کرائے کے فوجیوں کے طور پرآنے کی دعوت دی۔ اینگل-سیکسن (Anglo-Saxon) جنگجوؤں نے پکٹس سے تو دستبرداری اختیارکی مگر مُقامی لوگوں کی طرف آگے بڑھتے ہُوئے اپنے آپ کو حاکم کے طور پرجنگِ بیڈن ہل ( Battle of Badon Hill) جو تقریباؐ 460 میں لڑی گئی، تک مُستحکم کر لیا۔ اِس جنگ میں برطانوی چیمپیئن امبروسیس اوریلینس Ambrosius Aurelianus فاتح تھے۔ بیڈے اور نینیئس نے اس کہانی کو مزید تفصیل کے ساتھ آگے بڑھاتے ہُوئے جنگ کے سربراہ آرتھر کو بیڈن ہل کے ہیرو کے طور پرپیش کیا جسے بعد میں دوسروں نے انگریزوں کے بادشاہ آرتھر کے طور پرلیا اور جسے صدیوں سے مستند تاریخ سمجھا جاتا رہا۔

Britain, c. 600 CE
برطانیہ، قریب 600 عیسوی
Hel-hama (CC BY-NC-SA)

تا ہم جدید مُطالعہ نے اِس واقعاتی بیانیہ کو مُسترد کر دیا ہے کیونکہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اینگلو سیکسن پُر امن طریقے سے برطانیہ میں آئے تھے اور برطانوی لوگوں کیساتھ رہے تھے۔ حملے کے بارے میں بیانیہ کو شاید قزاقوں کے چھاپوں سے تقویت مِلی ہو جو اینگلو سیکسن کے قائم ہونے کے بعد بھی ساحلی شہروں کا شکار کرتے رہے۔زیادہ امکان یہی ہے کہ اِن لوگوں نے پہلے چھاوؐنی کے علاقے میں ابتدائی قدم جمانے۔ چھاوؐنی کے علاقے سے یہ نئے آنے والے لوگ مختلف سمتوں میں پھیل گئے، پہلے سے قائم آبادیوں میں شامل ہوئے اور تجارت میں حصہ لیا، اور ساتھ ہی اپنی بستیوں کی بنیاد رکھی جو ایسیکس (East Saxons)، ایسٹ انگلیا (East Anglia)، سسیکس (South Saxons)، مرسیا (Mercia مڈل سیکس کے ساتھ – مڈل سیکسنزMiddle Saxons جو بعد میں ایسیسس Essex کا حِصہ بن گیا) اورویسیکس (West Saxons) کے نام سے مشہور ہوئیں۔

ویسیکس کی بنیاد سیکسن کے سربراہ سرڈک (Cerdic) نے رکھی تھی جو 495 میں ایک مہم کی سربراہی کرتے ہُوئے اپنے بیٹے سنرک (Cynric) کے ساتھ برطانیہ پہنچے تھے اورانہوں نے جنگ میں ویلش (ویلز کا ایک مُقامی گروہ) اور برطانویوں کو شکست دی تھی۔ اگرچہ سرڈک کو اب بھی سیکسن کہا جاتا ہے، جدید مُطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ شاید ایک برطانوی ارل (برطانوی معاشرتی نظام میں پانچ درجوں میں سے ایک درجہ-درجوں کی ترتیب، ڈیوک، مارکیس، ارل، ویزکاؤنٹ، اور بیرن) تھا جس نے اپنی بادشاہی کھودی تھی، سیکسن کے پاس بھاگ گیا تھا اور ان کی زبان سیکھی تھی، اور پھر سیکسن کی ایک بڑی فوج کے ساتھ واپس آیا تھا تاکہ اس سے جو کچھ لیا گیا تھا اسے دوبارہ حاصل کرسکے۔ سرڈک کون تھا اس کے بارے میں ابھی تک اہل علم کے درمیان بحث جاری ہے (کچھ تو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کنگ آرتھر کی شخصیت کی بنیاد تھا) اور اس دور کے تاریخی تحریریں، جِن میں اینگلو سیکسن کرانیکلز(Anglo-Saxon Chronicles) بہت کم اِس بارے میں بتاتے ہیں کیونکہ وہ یا تو بہت کم معلومات فراہم کرتے ہیں یا افسانوی بیانات فراہم کرتے ہیں۔ اسکالر راجر کولنز(Roger Collins) نوٹ کرتے ہیں:

پانچویں صدی کے آخر میں وہ لوگ جِنہوں نے ایک تصوراتی بادشاہت ویسیکس کے بارے میں سوچا اور چھٹی صدی کے دُوسرے نِصف کے حُکمران طبقہ کی نمائدگی کرنے والے لوگوں کے درمیان ایک نا قابلِ عبُورخلیج ہے۔ ابتدائی مرحلے کی زیادہ تر معلومات واضح طور پر لوک داستان یا عقلی کردار کی ہوتی ہیں۔ (178

وہ چاہے کوئی بھی ہو، ایک عظیم جنگجو بادشاہ کے طور پر سرڈک (Cerdic) کی شہرت اتنی متاثر کن تھی کہ بعد میں انگریز بادشاہت کے نسب ناموں میں اسے اپنے آباؤ اجداد کے طور پر جانا گیا۔ اِسلئے صرف اس کی اولاد ہی قانونی طور پر الفرڈ دی گریٹ (871-899 Alfred the Great) جو پہلا اینگلو سیکسن بادشاہ تھا، کے دور حکومت کے دوران اور اس کے بعد ویسیکس کی بادشاہی کا دعویٰ کر سکتی تھی (کیونکہ الفرڈ سرڈک کے شاہی نسب نامے سے تھا)، جو ویئکِنگ کے چھاپووں کے خطروں کا مُقابلہ کر سکتا تھا ۔برطانیہ میں اس کا پوتا، ایتھلستان (ر. 927-939 Aethelstan) انگلینڈ کا پہلا بادشاہ بنا جو اس وقت تک ایک مرکزی حکومت اور مذہب کے تحت کم و بیش متحد ہو چکا تھا۔ کینٹربری کے سینٹ آگسٹین کی آمد کے بعد، جس نے کینٹ میں شاہی دربار کو تبدیل کر دیا، برطانیہ 597 میں مسیحی بنا۔ وائکنگ حملہ آوروں کے اچانک حملوں کا سب سے پہلے ساحل کے ساتھ مسیحی برادریوں نے سامنا کیا۔

Alfred the Great Statue, Winchester
الفریڈ دی گریٹ مجسمہ، ونچسٹر
Odejea (CC BY-NC-SA)

نتیجہ

اگرچہ مسیحیت نے ثقافتی طور پر لوگوں کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن سیاسی اتحاد اورماحول میں تیزی وائکنگ (Viking) کے چھاپوں سے ہُوئی جو سب سے پہلے 793 میں لنڈیسفارن کا ایبے (abbey of Lindisfarne) یعنی گرجہ گھر کے ساتھ مُلحقہ راہباوؐں کے رہنے کیلئے مخصوص جگہ کےعلاقے سے شروع ہوئے۔ وائکنگز نے ابتدائی طور پر اپنی دولت کی وجہ سے ساحل پر مذہبی مراکز کا انتخاب کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ آسان شکار تھے کیونکہ پادری غیر مسلح تھے۔ تاہم وقت کے ساتھ وہ پُوری طاقت سے حملے کریں گے، جیسے کہ 865 میں ہافڈین، پہلا وائکِنگ بادشاہ (c. 865-877 Halfdane) اور ایوار دی بونلیس، وائکِنگ لیڈر( Ivar the Boneless c. 870) کے تحت مشرقی انگلیا (East Anglia) میں بڑی فوج کی آمد۔ اس اڈے سے وہ اپنے خلاف بھیجی گئی ہرفوج کو شکست دیتے ہُوئے دوسری برادریوں کی طرف بڑھتے چلےگئے یہاں تک کہ وہ الفریڈ دی گریٹ، ویسٹ ویسیکس کا بادشاہ (Alfred the Great) کے ہاتھوں شکست کھا گئے، جس نے 878 میں ایڈنگٹن کی جنگ (Battle of Eddington) میں ان کے خلاف ایک فوج کے ساتھ چڑھاِئی کی تھی۔

یہ فتح برطانیہ کی تقسیم کا سبب بنی اور اِسطرح مشرقی مرسیا (East Mercia) ڈینیلو (Danelaw) کے علاقے میں ہالفڈین (Halfdane) کے تحت، مشرقی انگلیا کی بادشاہی (Kingdom of East Anglia) گتھرم (Guthrum) کے تحت اورویسیکس کی بادشاہی الفریڈ کے ماتحت چلی گئی۔ تاہم امن قائم کرنے میں بے چینی رہی اور 1013 میں برطانوی علاقے میں ڈینز(Danes) کے قتل عام کے بدلے میں برطانیہ پر سوین فورک بیئرڈ (Sven Forkbeard l. 986-1014) نے حملہ کیا۔ اس کی موت کے بعد، اس کا بیٹا (Cnut the Great l. 1016-1035) ڈنمارک کا بادشاہ بنا جِسنے اسے برطانیہ کے ساتھ ملایا، پھرمتنوع (diverse) ثقافتی اثرات متعارف کراتے ہُوئے ناروے اور سویڈن کو بھی تجارت میں اضافے کے ذریعے ساتھ مِلایا۔

آخری وائکنگ بادشاہ، ہیرالڈ ہارڈراڈا ( Harald Hardrada l. 1046-1066) نے 1066 میں برطانیہ پر حملہ کیا اور اُسکے بادشاہ ہیرالڈ گوڈونسن (Harold Godwinson) کے ماتحت اینگلو سیکسن کو اس قدر کمزور کر دیا کہ جب اسی سال برطانیہ پر نارمن کی فتح شروع ہوئی تو ہیسٹنگز کی جنگ (Battle of Hastings) ایک فیصلہ کن فتح تھی۔ یہ امکان ہے کہ ولیم فاتح (طاقتور اینگلو نارمن سلطنت کے بانی) کے ماتحت نارمن بہرحال ہیسٹنگز میں جیت گئے ہوں گے، لیکن ہارڈراڈا (Hardrada) کے ماتحت وائکنگ حملے نے اسے تقریباً یقینی بنا دیا تھا۔

Map of the Norman Conquest of Britain, 1066 - 1086
برطانیہ کی نارمن فتح کا نقشہ، 1066 - 1086
Simeon Netchev (CC BY-NC-ND)

نارمن کی فتح نے برطانیہ کی ثقافت کی ترقی پر بہت زیادہ اثر ڈالا، جس نے فنون لطیفہ، زبان، ادب، مذہب، فوجی اور سویلین ٹیکنالوجیز(civilian technologies) اورفن تعمیر کو آگے بڑھانے کے لیے راستہ طے کیا۔ نارمن، ہرایک کی طرح جو تارکین وطن یا حملہ آور کے طور پر برطانیہ پہنچے تھے، مُختلف طریقوں سے اثر انداز ہُوئے جس کے نتیجے میں برطانیہ کی جدید دور میں ایک مُختلف اوربھرپور ثقافت تشکیل ہُوئی۔

سوالات اور جوابات

مترجم کے بارے میں

Samuel Inayat
I began my professional career in July 1975 by joining a government service in scale 10 and continued till I retired in June 2013 in scale 17 after rendering 40 years unblemished service. Most of my service was as a Civil Servant.

مصنف کے بارے میں

Joshua J. Mark
ایک فری لانس لکھاری اورمارست کالج، نیو یارک کے سابقہ جزوقتی فلسفہ کے پروفیسر، جوشیا ج۔ مارک یونان اور جرمنی میں رہ چکے ہیں اور مصر کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے کالج کی سطح پر تاریخ، ادب، تصنیف و تالیف اور فلسفی کی تعلیم دی ہے۔

اس کام کا حوالہ دیں

اے پی اے اسٹائل

Mark, J. J. (2023, June 27). قدیم برطانیہ [Ancient Britain]. (S. Inayat, مترجم). World History Encyclopedia. سے حاصل ہوا https://www.worldhistory.org/trans/ur/1-137/

شکاگو سٹائل

Mark, Joshua J.. "قدیم برطانیہ." ترجمہ کردہ Samuel Inayat. World History Encyclopedia. آخری ترمیم June 27, 2023. https://www.worldhistory.org/trans/ur/1-137/.

ایم ایل اے سٹائل

Mark, Joshua J.. "قدیم برطانیہ." ترجمہ کردہ Samuel Inayat. World History Encyclopedia. World History Encyclopedia, 27 Jun 2023, https://www.worldhistory.org/britain/. ویب. 30 Jul 2025.

اشتہارات ہٹائیں