پہلی جنگِ عظیم کے اسباب

آرٹیکل

Mark Cartwright
کے ذریعہ، ترجمہ Samuel Inayat
دوسری زبانوں میں دستیاب: انگریزی, فرانسیسی, اطالوی, ترکی
آرٹیکل پرنٹ کریں PDF

پہلی جنگ عظیم (1914-18) کے شروع کرنے والے بہت اورمختلف فریق ہیں، جن میں سے کچھ کی تاریخیں کئی دہایاں پرانی ہیں، لیکن 1914 کے موسم گرما میں بالقان (جنوب مشرقی یورپ کا علاقہ) میں ایک سیاسی قتل ہی وہ چنگاری تھی جس نے یورپ کے سیاسی بارود کو اڑا دیا۔ یہ وہ غیر مستحکم سامراجی اُبھرتی ہوَئی قوم پرست حکومتوں کا مرکب تھا اور ایسے بین القوامی اتحادوں کا پیچیدہ جال تھا جسنے بیسویں صدی کی یورپین سفارت کاری کی صِفات مُرتب کیں۔

آج کے بیشتر مورخین کا اتفاق ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کا آغاز کسی ایک قوم نے نہیں کیا تھا، بلکہ اس کے شروع کرنے میں کئی فریق شامل تھےاور تمام فریقین کی اجتماعی ذمہ داری تھی، یعنی جرمنی، اٹلی اور آسٹریا-ہنگری کا جنگ سے پہلے کا سہ فریقی اِتحاد اور بعد کا برطانیہ، فرانس اور روس کا سہ فریقی اِتحاد۔۔ دیگر ریاستیں جو مختلف مراحل میں شامل ہوئیں ان میں بیلجیئم، جاپان، سلطنت عثمانیہ، بلغاریہ، یونان، پرتگال اور امریکہ کے علاوہ افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں مختلف یورپی طاقتوں کی کالونیاں بھی تھیں ۔ یہ پہلی عالمی اور مکمل مشینی جنگ اور ایسا خوفناک تنازعہ تھا جو 1918 میں ختم ہوا اوراسی لاکھ سے زیادہ جانیں لے گیا۔

Europe on the Eve of the First World War, 1914
پہلی جنگ عظیم کے موقع پر یورپ، 1914
Simeon Netchev (CC BY-NC-ND)

پہلی جنگِ عظیم کے بُنیادی اسباب

  • مُتحدہ جرمنی کا عروج
  • بیسویں صدی کے یورپ میں طاقت کا عدم توازن
  • بڑی طاقتوں کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ
  • افریقہ اور ایشیا میں یورپی سامراج اور دشمنی کا عروج
  • مخالف بین الاقوامی اتحادوں میں اضافہ
  • وسطی یورپ میں قوم پرستی میں اضافہ
  • آرچ ڈیوک فرڈینینڈ کا قتل (Archduke Ferdinand)

مندرجہ بالا تمام عوامل نے ایک تنازعہ کے پھیلنے میں اہم کردار ادا کیا جو کہ "یورپی نظام کے اندر ایک طویل عرصے سے جاری بحران کا خاتمہ تھا" (میک ڈونوف، 3) (McDonough, 3)۔ مندرجہ بالا وجوہات میں سے ہر ایک کا صحیح وزن مورخین کے درمیان قابلِ بحث نُقطہ ہے۔

جرمنی کا عروج

جرمنی ریاستوں کے اتحاد اور فرانکو-پرشین جنگ (Franco-Prussian War 1870-1) میں پرشین کی فتح کے بعد ایک ریاست کے طور پر 1871 میں وجود میں آیا۔ متحدہ جرمنی کے پاس ایک بڑی، نظم و ضبط اور اعلیٰ تربیت یافتہ فوج اور تیزی سے بڑھتی ہوئی بحریہ تھی (1914 تک یہ برطانیہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی بحریہ ہوگی)، ایک طاقتور اقتصادی بنیاد (درحقیقت، یورپ میں سب سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت)، اور بڑھتی ہوئی آبادی 1890 اور1914 کے درمیان 49 سے 66 ملین تک بڑھ گئی۔ وسطی یورپ میں یہ ایک نئی طاقت تھی جو پہلے سے قائم شدہ طاقتوں، خاص طور پر برطانیہ فرانس روس اور آسٹرو ہنگری سلطنت کو چیلنج کر سکتی تھی۔ اب سوال پیدا ہوا کہ جرمنی کی مستقبل کی خارجہ پالیسی کیا ہو سکتی تھی اور اس سے یورپ میں طاقت کے توازن پر کیا اثر پڑ سکتا تھا۔

جرمن سیاست پر اس کے پہلے چانسلر (1815-1898) Otto von Bismarck کا غلبہ تھا، جو 1871 سے 1890 تک اقتدار پر فائز رہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے بسمارک کا نقطہ نظر دیگر طاقتوں کو یقین دلانا تھا کہ جرمنی یورپ میں اپنی پوزیشن اور حیثیت سے مطمئن ہے۔ اس کے باوجود، 19ویں صدی کے اختتام پر جرمنی کے ساتھ اور اس کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کا ایک سلسلہ قائم ہوا۔

SMS Rheinland Battleship
ایس ایم ایس رائن لینڈ بحری بیڑہ
Bundesarchiv, DVM 10 Bild-23-61-23 (CC BY-SA)

یورپ کی طاقت کا نازک توازن

جرمنی، روس اور آسٹریا ہنگری نے 1872 میں ایک اتحاد پر دستخط کیے جو تین شہنشاہوں کی لیگ کے نام سے مشہور ہوا۔ 1879 میں، جرمنی اور آسٹریا-ہنگری نے ایک اور معاہدے پر دستخط کیے، دوہرا اتحاد جس نے ایک دوسرے پر روس کے حملے کی صورت میں ایک دوسرے کا دفاع کرنے کا پابند کیا۔ دوہرے اتحاد کا بدقسمتی سے نتیجہ یہ نکلا کہ آسٹریا ہنگری نے بالقان Balkans میں ہمیشہ سے پریشان قوم پرست تحریکوں کیساتھ سخت رویہ اپنانے کے لیے کافی پر اعتماد محسوس کیا۔ دریں اثنا، بسمارک نے اپنے سفارتی قلم کا استعمال جاری رکھا اور 1882 میں جرمنی، اٹلی اور آسٹریا-ہنگری کے درمیان تین مُلکی اتحاد کا ایک اور معادہ طے پایا۔ بسمارک دراصل ایک دوہرا کھیل کھیل رہا تھا، کیونکہ اس نے روس کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ بھی کیا تھا جس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر جرمنی فرانس پر حملہ کرتا ہے تو زار (Tsar) مداخلت نہیں کرے گا (زار یعنی روسی راہنما جرمن زبان میں تسار پڑھنے میں زار۔ یہ قیصر یعنی شپنشاہ کے معنی میں بھی اِستعمال ہوتا تھا)۔ جرمنی نے وعدہ کیا کہ اگر روس نے آسٹریا ہنگری پر حملہ کیا تو وہ غیر جانبدار رہے گا۔ روس کے ساتھ معاہدہ (Re-Insurance Treaty)، جیسا کہ یہ جانا جاتا تھا، میں یہ وعدہ بھی شامل تھا کہ جرمنی بالقان میں روس کے مفادات کا خیال رکھے گا۔

بسمارک نے سفارت کاری کے ذریعے امن کی کوشش کی ہو گی، لیکن اس کے جانشین جرمنی کی طاقت بڑھانے کے لیے مزید ڈرامائی اقدامات کرنے کے لیے تیار تھے

انیسویں صدی کا بالقان بحران

قوم پرست گروہوں کے عروج اور خود ارادیت کے لیے ان کے مطالبے، خاص طور پر وسطی یورپ نے انیسویں صدی کی آخری سہ ماہی سے بڑی یورپی ریاستوں کے استحکام کو خطرہ بنا دیا۔ یہ خاص طور پر بالقان میں تھا، قوم پرست جذبات نے 1876 میں بلغاریہ میں بحران پیدا کر دیا۔ بلغاریہ میں جب مختلف قوم پرست گروہ، جو اس وقت کمزورعثمانی سلطنت کا حصہ تھے، بڑے پہمانے پر مذہبی رواداری اور جُزوی حکومتی اختیارات کا مطالبہ کر رہے تھے تو ایک بغاوت پھوٹ پڑی جسے سربیا اور مونٹی نیگرو میں قوم پرستوں کی حمایت حاصل تھی۔ روس نے اپنے مستقبل میں فائدے کے لیے خطے کو غیر مستحکم کرنے کی امید میں، بلغاریہ کے قوم پرستوں کی بھی حمایت کی۔ 1877 میں روسی اور عثمانی سلطنتوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور ایک سال بعد اس کا اختتام روس کی فتح کے ساتھ ہوا۔

سان سٹیفانو San Stefano کا 1878 کا معاہدہ، جس نے بالقان میں تنازعہ کو ختم کیا، اس کے کچھ اہم اثرات تھے۔ بلغاریہ کی آزادی صرف نام ہی کی آزادی تھی۔ روس، سربیا اور رومانیہ کے فائدے کے لیے علاقوں کو دوبارہ تقسیم کیا گیا، اور (Bosnia-Herzegovina) بوسنیا ہرزیگووینا میں سیاسی اصلاحات کا وعدہ کیا گیا۔ تاہم آسٹریا ہنگری اور برطانیہ دونوں نے اس معاہدے کو روس کے خطے میں بہت زیادہ اثر و رسوخ بڑھانے کے طور پر سمجھا۔ تمام دلچسپی رکھنے والی جماعتوں کے درمیان ان خدشات کو کم کرنے کے لیے، بسمارک نے برلن میں ایک کانگریس کا اہتمام کیا، اور اس کے بعد 1878 میں برلن کے معاہدے پر دستخط کیے گئے، جس میں سربیا، مونٹی نیگرو اور رومانیہ کی آزادی کی ضمانت دی گئی، روس کو اپنے علاقائی مفادات کو برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی، اور آسٹریا ہنگری کو بازنیہ Bosnia-Herzegovina کے انتظامی امور دئے گئے اور بلغاریہ کو سلطنت عثمانیہ کے اندراور مسیحوں کو ایک مخصوص علاقے کا خود مُختار بنا دیا گیا۔ عثمانیوں نے بلغاریہ کا ایک ٹکڑا اپنے کنٹرول میں رکھا تھا، لیکن ان خطوں نے جلد ہی ان سے باقی سلطنت میں شامل ہونے کا مطالبہ کیا۔ روس نے سفارتی افراتفری میں مزید زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ بسمارک نے آسٹرو ہنگریوں کی پشت پناہی سے روک دیا۔ جرمنی کے موقف نے روس کے ساتھ پہلے دستخط کیے گئے معاہدوں کو مؤثر طریقے سے ختم کر دیا۔

بسمارک نے سفارت کاری کے ذریعے امن کی کوشش کی ہو گی، لیکن 1890 سے، اس کے جانشین جرمنی کی طاقت بڑھانے کے لیے مزید ڈرامائی اقدامات کرنے کے لیے تیار تھے۔ بالقان ایک بار پھر 1914 کے موسم گرما میں ایک اور سفارتی بحران کے ساتھ دنیا کی توجہ کا مرکز بن جائے گا، لیکن اس سے پہلے، بڑی طاقتوں نے ایک بالکل مختلف براعظم کے علاقے کے لیے جھڑپیں شروع کر دیں۔

The Scramble for Africa after the Berlin Conference, 1885
برلن کانفرنس کے بعد افریقہ کے لیے جدوجہد، 1885
Simeon Netchev (CC BY-NC-ND)

افریقہ میں سامراج

تقریباً 1880 سے 1914 تک، مختلف یورپی طاقتوں نے افریقہ میں جتنے بھی علاقے کو وہ حاصل کر سکتے تھے، پر قبضہ کر لیا، نوآبادیاتی عمل کو 'سکرابل فار افریقہ'( 'scramble for Africa') کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کچھ زمینوں پر قبضے تجارتی راستوں کی حفاظت کے بارے میں تھے، دوسرے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تھے کہ حریف قیمتی قدرتی وسائل کے زیادہ قریب نہ پہنچ جائے یا حاصل نہ کرے، اور پھر محض وقار کے لیے جگہیں تھیں جہاں رہنما گھر پر اپنی مقبولیت بڑھا سکتے تھے۔ 20ویں صدی کے اوائل تک براعظم کا 90% حصہ کسی نہ کسی طرح کے یورپی کنٹرول میں تھا۔ برطانیہ اور فرانس کے بھی ایشیا میں نوآبادیاتی مفادات تھے، یہ ایک اور میدان جنگ تھا جس نے امریکہ، روس اور جاپان جیسے نئے سامراجی شرکاء کو جنم دیا۔ ان میں سے کسی بھی واقعے نے پہلی جنگِ عظیم کے پھیلنے پر براہ راست اثر نہیں ڈالا، لیکن انہوں نے بڑی طاقتوں کے درمیان دشمنی کی فضا میں اہم کردار ادا کیا، اور کالونیوں کے لیے جدوجہد نے یقینی طور پر یورپی رہنماؤں اور آبادیوں کے درمیان یکساں رویہ کو فروغ دیا کہ چھوٹے ممالک کِسی بڑے نُقصان سے بچنے کیلئے بڑے ممالک میں ضِم ہو سکیں۔

ممالک نے جرمنی کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور فوجی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد بنانا شروع کیا

قیصر کی عالمی پالیسی

قیصر ولہائم دوم (1859-1941) جرمنی میں 1888 میں اس طرح اقتدار میں آیا جیسے ایک شہنشاہ ہوتا ہے۔ وہ 1918 تک اقتدار میں رہا۔ مزید علاقائی اور فوجی توسیع پر زور دیا کہ بذریعہ ملٹری طاقت مُلکی وسائل کو محفوظ کرے جِنکی اُنکی بڑھتی ہوئی معشت کو ضرورت تھی۔ اس نئی پالیسی کو 'ورلڈ پالیسی' یا ویلٹ پولیٹک 'World Policy' or Weltpolitik. کہا گیا۔ ولہائم دوم کے چانسلر برن ہارڈ وون بلو Bernhard von Bülow (1849-1929) اور بحریہ کے وزیر ایڈمرل الفریڈ وون ٹیرپٹز Admiral Alfred von Tirpitz (1849-1930) دونوں اس پالیسی کے ساتھ پورے دل سے متفق تھے۔ اُنکی اِن پالیسیوں کا اضافی فائدہ یہ تھا کہ عام عوام کی توجہ گھریلو معاملات سے ہٹ جائے۔ اس طرح کہ جاری صنعتکاری اور جمہوری عمل کمزور ہو جائے۔ ورلڈ پالیسی کی سب سے زیارہ حمایت jingoistic press پریس نے کی۔ ویلٹ پولیٹک کی پالیسی نے بین الاقوامی تعلقات میں پھیلے ہوئےعدم استحکام کو مزید خراب کیا۔ جیسا کہ مورخ ایف میکڈونا کا کہنا ہے: "پالیسی نے بہت زیادہ تناؤ پیدا کیا، بہت کم کام کیا، اور بین الاقوامی تعلقات کو خراب کیا" (9)۔ مورخ ڈی خان مزید کہتے ہیں: "1890 کی دہائی سے سامراجی جرمنی ایک بنیادی طور پر غیر مطمئن طاقت تھا، جو جمود کو خراب کرنے اور اپنے وسیع مقاصد کے حصول کے لیے ، اگر ممکن ہو تو غنڈہ گردی کے ذریعے، اگر ضروری ہو تو جنگ کے ذریعے خواہش مند رہتا تھا۔" (209)۔ مختصر یہ کہ جب عالمی امن کی بات کی گئی تو جرمنی کو اب بڑے پیمانے پر دشمن نمبر ایک کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

ممالک نے جرمنی کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد بنانا شروع کر دیے، خاص طور پر 1894 کا فرانکو-روس فوجی اتحاد (Franco-Russian military alliance)، جسمیں اِس بات کو یقینی بنایا گیا کہ اگر جرمنی، اٹلی، یا آسٹریا-ہنگری ان پر حملہ کریں گے تو وہ ایک دُوسرے کی مدد کریں گے۔ دھمکی فرضی نہیں تھی۔ 1905 میں جرمن جنرل الفریڈ وون شلیفن (1833-1913) (Alfred von Schlieffen) نے پہلے فرانس پر حملہ کرکے اور پھر روس کی طرف رخ کرکے دو محاذوں پر لڑائی سے بچنے کا منصوبہ بنایا۔ اسی وقت، روسی جرنیلوں نے آسٹریا، ہنگری اور جرمنی پر حملہ کرنے کے بہترین طریقے سے منصوبے بنائے۔ فرانسیسی جرنیلوں نے جرمنی کے خلاف مہم کے لیے حملے کے منصوبے بنائے۔ برطانیہ کو جرمن ہتھیاروں پر بھی شک تھا۔ برطانیہ بھی، افریقہ میں فرانس کے ساتھ دشمنی میں، اور روس کے ساتھ، وسطی ایشیا اور برطانوی ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی مفادات کے لیے، جس کو گریٹ گیم کے نام سے جانا جاتا تھا، شامل رہا ہے۔۔

برطانیہ اور فرانس نے 1904 اینٹیتی کووردئیل معادہ (Entente Cordiale), پر دستخط کر کے افریقہ اور ایشیا میں مفادات کے تنازعات کو تو ختم کیا لیکن یورپ میں جنگ کی صورت میں باہمی تعاون کا احاطہ نہیں کیا۔ 1907 میں، اینگلو-روسی کنونشن پر دستخط کیے گئے، جس نے افغانستان، تبت اور فارس (جدید ایران) پر سامراجی دعووں پر تناؤ کو دور کیا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ، برطانیہ، فرانس اور روس کی تین بڑی طاقتیں، جنہیں اکثر ٹررپل انٹیٹی (Triple Entente) کہا جاتا تھا ، جرمنی کے خلاف ایک متحدہ محاذ کی شکل اختیار کر رہے تھے۔ پھر بھی، قیصر نے اپنے ویلٹ پولیٹِک کے ساتھ فرانسیسی شمالی افریقہ کو دھمکیاں دیتے ہوئے اور برطانیہ کے ساتھ بحری ہتھیاروں کی دوڑ کو بڑھاوا دیا، ایک ایسا مقابلہ جس سے مؤخر الذکر پیچھے نہیں ہٹے گا کیونکہ اس نے جرمن جنگی جہازوں کو پوری دنیا میں اپنی سلطنت کے لیے ایک الگ خطرہ کے طور پر دیکھا تھا۔

European Division of Africa Cartoon
افریقہ کی یورپین تقسیم۔ کارٹون
Unknown Artist (Public Domain)

1914 بالقان بحران

بالقان کیلئے یہ بات حیران کُن تھی کہ 1908 میں ایک بار پھر یورپی سفارت کار پُر اِسرار نظروں سے دیکھنے لگے۔ آسٹریا ہنگری نے اصلاح پسندوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خوفزدہ ہو کر اکتوبر 1908 میں بوسنیا ہرزیگووینا کو اپنے میں ضِم کر لیا۔ روسی تسارTsar (رُوسی راہنماوؐں کو تسار کہتے تھے یہ رومن لفظ قیصر سے ہے) نے احتجاج کیا۔ جرمن قیصر نے واضح کیا کہ وہ آسٹریا ہنگری کی حمایت کے لیے لڑنے کے لیے تیار ہے۔ جرمنی نے 1911 میں فرانسیسی مراکش میں مزید مداخلت جسے اگادیر Agadir (مراکش کا شہر) بحران کہا جاتا ہے، نے یورپی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کو مزید بڑھا دیا۔ برطانیہ نے فرانس کا ساتھ دیا۔ جرمنی پیچھے ہٹ گیا لیکن معاوضے کے طور پر کانگو کا ایک ٹکڑا حاصل کر لیا۔ 1912 میں، برطانیہ اور فرانس نے اپنے اتحاد کو مضبوط کیا اور پہلے سے کئے وعدہ کیمُطابق مہم جُوئی کیلئے ایک وفد فرانس بھیجا۔ برطانیہ، فرانس اور روس نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ بحری معاہدے پر دستخط کیے۔ قیصر اور جرمن پریس نے اب جرمنی کے دشمنوں کے گھیرے میں آنے کی بات کی۔ بالقان میں، جب ریاستوں نے ٹوٹتی ہوئی عثمانی سلطنت سے آزاد ہونے کی کوشش کی تو کلیدی کھلاڑی سربیا تھا۔ یہاں، حکمران بادشاہت عثمانی اور آسٹرو ہنگری کی سلطنتوں کی مداخلت کے خلاف تھی لیکن روس نواز تھی۔ سربیا کی حکومت یہاں سلاوی ریاستوں یعنی ( بیلہ روس، روس یوکرین،پولینڈ،چیکوسلویکہ،بوزنیہ ہرزیگوینیہ،بلغاریہ،کروشیہ،مسیڈونیہ،مونٹینیگرو اور سربیہ) کا ایک نیا اتحاد بنانا چاہتی تھی۔ اس عزم کا پیش خیمہ بالقان لیگ تھی جو 1912 میں قائم ہوئی تھی۔

لیگ جس میں سربیا، بلغاریہ، مونٹی نیگرو اور یونان شامل تھے، نے اکتوبر 1912 میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف اعلان جنگ کیا اور ترکوں کو کامیابی کے ساتھ علاقے سے باہر نکال دیا۔ یہ پہلی بالقان جنگ تھی، لیکن یہ سربیائیوں کے لیے سخت مایوسی کے ساتھ ختم ہوئی کیونکہ البانیہ اور بحیرہ ایڈریاٹک تک رسائی سے انہیں 1913 کے لندن کے معاہدے کے ذریعے انکار کر دیا گیا تھا۔ یونان اور بلغاریہ بھی اہم علاقائی فوائد کی کمی کی وجہ سے مایوس تھے۔

اِن ناگزیر حالات میں دوسری بالقان جنگ جون 1913 میں شروع ہوئی۔ بلغاریہ نے سربیا پر حملہ کیا، اور یونان، رومانیہ اور ترکی نے پھر بلغاریہ کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ بلغاریہ جنگ ہار گیا، اور 1913 کے بخارسٹ کے معاہدے نے بالقان کی سرحدوں کو ایک بار پھر تبدیل کر دیا۔ بدقسمتی سے، سربیا نے ابھی تک اپنی مطلوبہ ایڈریاٹک بندرگاہ حاصل نہیں کی تھی۔ یہ ایک ایسی ریاست تھی جس میں 200,000 افراد کی فوج تھی، جو آسٹریا-ہنگری کے لیے براہ راست خطرہ بنی ہوئی تھی، جو اپنی کمزور فوجی حیثیت کے پیش نظرموجودہ حثیت اورحدود کی حفاظت کے لیے جرمنی پر اِنحصار کرنی تھی۔۔

فرانز فرڈینینڈ کا قتل

آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ Archduke Franz Ferdinand) (1863-1914))، آسٹریا-ہنگری پر حکمرانی کرنے والے ہیبسبرگ تخت (Habsburg throne) کے وارث نے 1914 کے موسم گرما میں بوسنیا کے دارالحکومت، سراجیوو کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ سراجیوو مقامی قوم پرستی کا گڑھ تھا۔ فرنڈینڈ کا سراجیوو کا دورہ کرنے کا بہترین انتخاب نہیں تھا، لیکن آسٹرو ہنگری فوج کے انسپکٹر جنرل کی حثیت سے فرنڈینڈ کا سراجیوو کا دورہ اُسکے فرائض کا حِصہ تھا۔ غیر دانشمندانہ طور پر، آرچ ڈیوک نے 28 جون کو ایک اوپن ٹاپ کار میں شہر کا دورہ کرنے کا انتخاب کیا۔ جیسے ہی گاڑی ایک ہجوم سے ملنے کے لیے سست ہوئی، ایک نوجوان بوسنیائی سرب قوم پرست، گیوریلو پرنسپ (1894-1918 Gavrilo Princip) باہر نکلا اور آرچ ڈیوک اور اس کی بیوی، کاؤنٹیس سوفی چوٹیک (Countess Sophie Chotek) دونوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پرنسپ کی بندوق سربیا کے ایک قوم پرست گروپ بلیک ہینڈ نے فراہم کی تھی۔ آسٹریا ہنگری کا شہنشاہ، فرانز جوزف اول (دور حکومت 1848-1916)، آرچ ڈیوک کا چچا، قابل فہم طور پر ناراض تھا۔ سربیا کی حکومت کو فوری طور پر اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ فرانز جوزف نے سربیا پر قبضہ کرنے کے اپنے منصوبے کے لیے جرمنی کی حمایت حاصل کی۔ جِسکی قیصر نے چھ جولائی کو اِجازت دے دی۔ اُسکا اجازت دینا 'بلینک چیک' آزادی کے نوٹس کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہ اس واضح دھمکی کے باوجود تھا کہ روس سربیا کے خلاف جنگ کی اجازت نہیں دے گا اور ممکنہ طور پر مداخلت کرے گا، جس کے نتیجے میں، برطانیہ اور فرانس کو ان کے معاہدے کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی جا سکتی تھی۔

Archduke Franz Ferdinand Prior to His Assassination
آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ اپنے قتل سے پہلے
Unknown Photographer (CC BY-NC-SA)

اس واقعے میں، روس درحقیقت سربیا کی آزادی کے تحفظ کا ارادہ رکھتا تھا، اور زار کو فرانسیسی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ اس کے باوجود آسٹریا ہنگری کی حکومت نے 23 جولائی کو سربیا کی حکومت کو ایک الٹی میٹم جاری کیا، جس میں اس پر قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا اور قوم پرست تحریک کو دبانے کے بارے میں کہا۔ سربیا کی حکومت نے الٹی میٹم پر غور کیا اور مزید مذاکرات پر رضامندی ظاہرکی۔ آسٹریا ہنگری نے الٹی میٹم کے مطالبات کو فوری طور پر تسلیم کرنے پر اصرار کیا۔ آسٹریا ہنگری اور جرمنی دونوں نے برطانیہ کی طرف سے اس مسئلے پر بات چیت کے لیے امن کانفرنس منعقد کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا۔ 28 جولائی کو آسٹریا ہنگری نے باضابطہ طور پر سربیا کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ روس نے اصرار کیا کہ اگر ہیبسبرگ کی فوجیں سربیا سے واپس نہ لی گئیں تو وہ جنگ میں جائے گا اور اس لیے زار نکولس (دور حکومت 1894-1917 Tsar Nicholas II ) نے قیصر ولہیم کو ایک ٹیلیگرام بھیجا جس میں کہا گیا تھا کہ "یورپی جنگ جیسی آفت سے بچنے کے لیے، میں آپ سے ہماری پرانی دوستی کے نام پر التجا کرتا ہوں کہ آپ اپنے اتحادیون کی جنگ میں جانے کی تمام کوششوں کو روکنے کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں، کریں"۔ آسٹریا ہنگری نے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا، روس نے اپنی فوج کو متحرک کرنے کی دھمکی دی، اور جرمنی نے جوابی کارروائی میں ایسا ہی کرنے کی دھمکی دی۔ کوئی پیچھے نہیں ہٹا۔ زار نے 30 جولائی کو اپنی فوج کو متحرک کیا۔ اگلے دن، قیصر نے روس کے متحرک ہونے کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ تمام فریقین نے اب بھی بحران کو مقامی رکھنے کی امید کی ہو گی، لیکن 1 اگست 1914 کو جرمنی نے روس کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ اسی دن، جرمنی اور فرانس دونوں نے اپنی فوجوں کو متحرک کیا۔ اٹلی نے اعلان کیا کہ وہ آنے والے تنازع میں کم از کم اس اُس موقع پر غیر جانبدار رہے گا۔ 2 اگست کو جرمنی نے لکسمبرگ پر حملہ کیا اور برطانیہ نے اپنی بحریہ کو متحرک کیا۔

جنگ چھِڑجاتی ہے

قیصر اور اس کے جرنیل اپنے شیلفن پلان (Schlieffen Plan ) کو فوری طور پر کام میں لانے کے لیے بے حد بے چین تھے کہ فرانس پر تیزی سے اور زبردست طاقت کے ساتھ حملہ کریں، اور پھر ایک ساتھ دونوں دشمنوں کا سامنا کرنے کے بجائے روس پر حملہ کریں۔ اس منصوبے کے لیے جرمن فوجیوں کوغیر جانبدار بیلجیم سے گزرنا تھا، اس طرح فرانکو-جرمن سرحد پر فرانس کی دفاعی قلعہ بندی کو روکنا تھا۔ اس کے لیے 2 اگست کو اجازت طلب کی گئی تھی۔ بیلجیم نے انکار کر دیا۔ برطانیہ کو براعظمی جنگ میں غیر جانبدار رہنے کی امید تھی لیکن وہ ایک معاہدے کے ذریعے بیلجیئم کی غیر جانبداری کو برقرار رکھنے کا پابند تھا جس پر دونوں ریاستوں نے پہلے دستخط کیے تھے۔ کسی بھی صورت میں، برطانیہ اس کے ساتھ کھڑا نہیں رہ سکتا تھا اور فرانس کو کچلتا ہوا دیکھ نہیں سکتا تھا کہ ایک نیا یورپ تشکیل پاتا جس پر مکمل طور پر جرمنی کا غلبہ ہوتا۔ برطانیہ نے جرمن حکومت کو مطلع کیا کہ بیلجیم کے ذریعے متحرک ہونے کے نتیجے میں برطانیہ جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دے گا۔ 3 اگست کو، جرمن فوجیوں نے بیلجیم سے فوجی پیش قدی کی، اور جرمنی نے باضابطہ طور پر فرانس کے خلاف جنگ کا اعلان کیا (اور اس کے برعکس)۔ 4 اگست کو برطانیہ نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ 6 اگست کو آسٹریا ہنگری نے روس کے خلاف جنگ کا اعلان کیا اور سربیا نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ 10 اگست کو فرانس نے آسٹریا ہنگری کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ برطانیہ نے 12 اگست کو اس کی پیروی کی۔ ایک نوجوان قاتل نے واقعات کی ایک پیچیدہ زنجیر کو جنم دیا تھا جس کا اختتام پہلی جنگ عظیم، پہلی حقیقی عالمی تنازعہ اور تاریخ کی پہلی مکمل جنگ میں ہوا۔

Kaiser Wilhelm II
قیصر ولہیم دوم
T H Voigt (CC BY-NC-SA)

پہلی جنگ عظیم میں تقریباً 80 لاکھ جنگجو مارے گئے۔ یہ تنازعہ، جسے اس وقت جنگ عظیم کے نام سے جانا جاتا تھا، برطانیہ، فرانس اور اٹلی کی فتح پر ختم ہوا، اور اس کے نتیجے میں چار سلطنتیں تباہ ہوئیں: آسٹرو ہنگری، روس، عثمانی اور جرمن سلطنتیں۔ معاہدہ ورسائی، جس کا باضابطہ مقصد امن تھا ، خاص طور پر جرمنی اور اس کے اتحادیوں کو جنگ شروع کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا، حالانکہ مورخین آج کل تمام فریقوں کو ان کی ضرورت سے زیادہ قوم پرستی، انتہائی جارحانہ خارجہ پالیسیوں، اور سفارتی مواقع سے محروم ہونے کی وجہ سے اجتماعی ذمہ داری کو ہی بڑی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

اگرچہ پہلی جنگِ عظیم کو "تمام جنگوں کو ختم کرنے کی جنگ" کے طور پر بیان کیا گیا تھا لیکن دنیا جلد ہی 1939میں دوسری عالمی جنگ کے شروع ہونے کے ساتھ اس سے بھی بڑے تنازع کا شکار ہونے والی تھی۔ بہت سے مورخین پہلی جنگِ عظیم کے غیر حل شدہ علاقائی تنازعات اور معاہدہ ورسائی کی سخت شرائط کو دُوسری جنگِ عظیم کی بڑی وجوہات مانتے ہیں، جو کہ 1945 میں اس کے اختتام تک، تقریباً 50 ملین اموات، سلطنتوں کے خاتمے اور ریاستہائے مُتحدہ امریکہ اورسوویٹ یونین کے زیر تسلط ایک نئے عالمی نظام کا سبب بن چکے تھے۔

سوالات اور جوابات

کتابیات

ورلڈ ہسٹری انسائیکلوپیڈیا ایک ایمیزون ایسوسی ایٹ ہے اور اہل کتاب کی خریداری پر کمیشن

مترجم کے بارے میں

Samuel Inayat
I began my professional career in July 1975 by joining a government service in scale 10 and continued till I retired in June 2013 in scale 17 after rendering 40 years unblemished service. Most of my service was as a Civil Servant.

مصنف کے بارے میں

Mark Cartwright
مارک اٹلی کا ایک تاریخ پر لکھنے والی لکھاری ہے۔ ان کی دلچسپی کا مرکز کوزہ گری، فن تعمیر، عالمی اساطیری روایات اور ایسے خیالات تلاش کرنا ہے جو کہ مخلتلف تہذیبوں میں ایک جیسے ہیں۔ ان کی سیاسی فلسفہ میں ماسٹر ڈگری ہے اور وہ گھروں کے عالمی دائرۃ المعارف میں طباعت کے ڈائریکٹر ہیں۔

اس کام کا حوالہ دیں

اے پی اے اسٹائل

Cartwright, M. (2025, May 15). پہلی جنگِ عظیم کے اسباب [The Causes of WWI]. (S. Inayat, مترجم). World History Encyclopedia. سے حاصل ہوا https://www.worldhistory.org/trans/ur/2-2723/

شکاگو سٹائل

Cartwright, Mark. "پہلی جنگِ عظیم کے اسباب." ترجمہ کردہ Samuel Inayat. World History Encyclopedia. آخری ترمیم May 15, 2025. https://www.worldhistory.org/trans/ur/2-2723/.

ایم ایل اے سٹائل

Cartwright, Mark. "پہلی جنگِ عظیم کے اسباب." ترجمہ کردہ Samuel Inayat. World History Encyclopedia. World History Encyclopedia, 15 May 2025, https://www.worldhistory.org/article/2723/the-causes-of-wwi/. ویب. 30 Jul 2025.

اشتہارات ہٹائیں