دُوسری جنگِ عظیم کے اسباب

آرٹیکل

Mark Cartwright
کے ذریعہ، ترجمہ Samuel Inayat
26 March 2024 پر شائع ہوا 26 March 2024
آرٹیکل پرنٹ کریں PDF

دوسری عالمی جنگ (1939-45) کی بُنیادی وجوہات پہلی جنگ عظیم (1914-18) کے سخت امن حل اور 1930 کی دہائی کے معاشی بحران سے معلوم کی جا سکتی ہیں لیکن فوری وجہ جرمنی، اٹلی اور جاپان کے اپنے پڑوسیوں پر جارحانہ حملے تھے۔ یورپ کمزور اور منقسم ، تنہائی پسند ریاستہائے مُتحدہ امریکہ اور موقع پرست ریپبلک سووئٹ یونین سب امن کے خواہاں تھے۔ خوشامد کی پالیسی نے ایک ہی چیز فراہم کی اور وہ ایک طویل خوفناک عالمی جنگ کا خوف تھا۔

Europe on the Eve of WWII, 1939
دوسری جنگِ عظیم کے موقع پر یورپ 1939
Simeon Netchev (CC BY-NC-ND)

دُوسری جنگِ عظیم کی بنیادی وجوہات:

  • کا معاہدہ(Versailles)
  • (معاشی بحران (1930
  • فاشزم کا عروج
  • جرمنی کا دوبارہ ہتھیار بنانا
  • ایڈولف ہٹلر کا فرقہ
  • مغربی طاقتوں کی خوشنودی کی پالیسی
  • محور طاقتوں کے درمیان باہمی دلچسپی کے معاہدے
  • اتحادیوں کے درمیان معاہدوں کا فقدان
  • جرمنی، اٹلی اور جاپان کی علاقائی توسیع
  • نازی سوویت معاہدہ
  • ستمبر 1939 میں پولینڈ پر حملہ
  • پرل ہاربر میں امریکی بحری اڈے پر جاپانی حملہ

کا معاہدہ (Versailles)

پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی کو شکست ہُوئی اور فاتحین نے سخت شرائط عائد کیں اِس بات کو یقنی بنانے کیلئے کہ کُچھ جنگی اخراجات پُورے کئے جا سکیں او جرمنی کو اِس بات سے روکا جا سکے کہ وہ مُستقبل میں خطرہ نہ بنے۔ یورپین معشتوں اور آبادیوں کو شدید نُقصان پہنچا۔ فاتحین نرم رویہ اپنانا نہیں چاہتے تھے کیونکہ جرمنی تقریباؐ جیت چُکا تھا اور اُسکی صنعت برقرار تھی۔ جرمنی ایک خطرناک ریاست رہی تا ہم برطانیہ اور فرانس تعزیری تصفیہ نہیں چاہتے تھے۔ شاہد اِس وجہ سے کہ کہیں طویل ناراضگی نہ ہو اور جرمنی برآمدات میں اہم اشیا کی منڈی نہ بن سکے۔

جرمنی کو پہلی جنگِ عظیم کے شروع کرنے کی پُوری ذمہ داری یعنی جُرم کو تسلیم کرنا پڑا

امن کی شرائط 28 جُون 1919 کو طے پانے والا ورسائی معادہ میں طے کی گئی تھیں جِن پر سوویٹ یونین کے علاوہ باقی تمام فریق مُتفق تھے۔( یہ طے پایا گیا) کہ رینلانڈ غیر عسکری حثیت سے جرمنی اور فرانس کے درمیان ایک بفر زون (مُخالفین کے درمیان رُکاوٹی زون) کے طور پر کام کرے۔ تمام کالونیاں اور مغربی جرمنی میں کوئلہ پیدہ کرنے کیلئے مشہور سار نام کا علاقہ جرمنی کے اِختیار سے باہر کر دیا گیا۔ پولینڈ کو سلِسلا کا اُوپر والا صنعتی علاقہ دے دیا گیا۔ اِس کے علاوہ سمندر کی طرف جانے کیلئے ڈینشک (Danzig) سے راہ داری دی گئی اِس مقصد کیلئے کہ مشرقی پروشیہ باقی جرمنی سے کٹ جائے۔ فرانس الساس اور لورین کے عِلاقے واپس لے سکا۔ جرمنی کو فرانس اور بلجیم کو جنگ میں ہونے والے اخراجات کی تلافی کرنی پڑی۔ جرمنی کی افواج کی حدود مُقرر کر دی گِئیں اور اُن پر ٹینک جنگی جہاز، آبدوزیں اور بحری بیڑے بنانے کی پابندی عائد کر دی گئی۔ بالآخر جرمنی کو پہلی جنگِ عظیم کے شروع کرنے کی پُوری ذمہ داری یعنی جُرم کو تسلیم کرنا پڑا۔ بہت سے جرمنی کے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ امن کیلئے یہ تزلیلی شرائط تھیں۔

اِس تصفئیے کے سبب مشرقی یورپ میں 9 ممللک نے جنم لیا اور یہی عدمِ اِستحکام کا سبب بنا کیونکہ سب نے اپنی سرحدوں کو متنازعہ بنایا ۔ بہت سے ایسےبڑے اقلیتی گروہ تھے جو کِسی دُوسرے مُلک کا حِصہ ہونے کا دعویؐ کرتے تھے۔ پہلی جنگ عظیم کی بھاری قیمت چکانے کے بعد ایک بار پھر طاقتور اٹلی اور روس نے ان نوخیز ریاستوں کو سامراجی حسد کی نظروں سے دیکھا۔

Newspaper Front Page Declaring the Signing of the Treaty of Versailles
ورسیل کے معاہدے پر دستخط کرنے کا اعلان اخبارکا فرنٹ پیج
Kallen2021 (CC BY-SA)

جرمنی نے دُوسری صدی کے آخر میں دو اہم معادے کئیے۔ ٖلوکارنو معادہ 1925 جس کے مُطابق اُس کو مغربی سرحدوں کی ضمانت دی گئی لیکن مشرقی سرحدوں کی طرف تبدیلی کی گُنجاَئش تھی۔ کیلوگ برانڈ معادہ 1928 چھپن (56) ممالک کے درمیان طے پایا۔ بڑے مملک نے وعدہ کیا. کہ وہ خارجی امور کو فوجی ذرائع سے حل نہین کریں گے۔ وارسائی معادہ کے مُطابق جرمنی کی بحالی کے لئے اخراجات 6.6 ملین پووئڈ سے کم کر کے 2 ملین پاونڈ تک کم کر دئے گئے۔ 1932 میں تلافی کی بابت معادوں کو یکسر منسوخ کر دیا گیا۔ یہ امید افزا تھا، لیکن 1930 کی دہائی میں، یورپی سفارت کاری کا پیچیدہ جال تیزی سے اقتصادی زوال کے ماحول میں کھلنا شروع ہوا۔

معاشی بحران

وال سٹریٹ سٹاک مارکیٹ کی بے پناہ مندی ( 1929) سے پیدا ہونے والا گریٹ ڈپریش 1930 کی دہائی تک بہت سی معیشتوں میں بحران کا باعث بنا۔ عالمی تجارت، قیمتوں اور روزگار میں تباہی آئی۔ جرمنی میں 1923 میں افراط زر کی شرح عروج پر تھی، جس کے سبب بچت کی کوئی قدر نہ رہی جِسے متوسط طبقہ کبھی نہ بھول سکا۔ ریاستہائے متحدہ سے باقاعدہ قرضے (ڈاوس پلان) جِس پر جرمن معیشت کا انحصار تھا، بند ہو گیا۔ بین الاقوامی تجارت کے خاتمے کے ساتھ ہی کئی ریاستوں کے درمیان مخالفانہ رویہ پیدہ ہُوا۔ امریکہ، دنیا کا سب سے اہم ساہوکار، تنہائی کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوا۔ برطانیہ اور فرانس صرف اپنی سلطنتوں کو دیکھتے تھے۔ تحفظ پسندی اور تجارتی محصولات معمول بن گئے۔

جرمنی کے خُود کفیل ہونے اور عالمی تجارتی شراکت داروں پر انحصار نہ کرنے کے لیے پرعزم ہو گیا۔ (اِس کی نظر میں) قدرتی وسائل کے حصول کے لیے قبضہ بذریعہ فوج کی پالیسی اپنانے کی ضرورت تھی۔ جرمنی نے مالی بحران سے نکلنے کے راستے کو بڑے پیمانے پر دوبارہ اسلحہ سازی کے طور پر دیکھا کہ اس سے فیکٹریوں اور مسلح افواج میں ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ اس پالیسی میں نہ صرف ہتھیاروں کا ذخیرہ کرنا شامل تھا بلکہ مکمل جنگ کے لیے مضبوط معشت بھی شامل تھی۔ اس لیے ہتھیاروں کی صنعت کو وسائل، توانائی کارخانوں اور ہنر مند کارکنوں کے لحاظ سے ترجیح دی گئی۔

Adulation of Hitler, Bad Godesberg
ہٹلر کا اِستقبال، بیڈ گاڈزبرگ
Bundesarchiv, Bild 183-H12704 (CC BY-SA)

ہٹلر اور نازی پارٹی

قوم پرست فاشسٹ پارٹیاں پورے یورپ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ 1922 سے اٹلی پر فاشسٹ پارٹی کے رہنما بینیٹو مسولینی (1-1883-1945) کی حکومت تھی۔ 1939 تک اسپین میں جنرل فرانکو (1-1892-1975) میں فاشسٹ حکمران تھا۔ جرمنی میں، ایڈولف ہٹلر فاشسٹ نیشنل سوشلسٹ پارٹی (1-1889-1945) (نازی پارٹی) کے رہنما تھے، جو 1932 کے جولائی اور نومبر کے انتخابات کے بعد سب سے بڑی پارٹی تھی۔ برطانیہ جیسی جمہوریت میں بھی فاشسٹ پارٹیاں تھیں۔ کرشماتی صفات کے مالک مقبول قوم پرست راہنما فاشزم کے نام سے عام پبلک کے خیالات کو ایک مزموم انداز سے بدل رہے تھے۔

۔فاشسٹ پارٹیاں، اگرچہ مختلف ممالک میں بالکل ایک جیسی نہیں تھیں، لیکن ان کے کچھ کلیدی مقاصد مشترک تھے۔ فاشسٹ رہنما کُلی طور پر حُکمرانی چاہتے تھے اور اِسکو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے دُوسروں کو اپنے ساتھ ملانا، عدمِ اتفاق پر دشمنی، معمول کے تشدد، کمزوروں کے لیے حقارت، اور اختلاف رائے سے انتہائی نفرت" پر زور دیا (ڈیئر، 274)۔ فاشسٹ پارٹیوں نے ابتدا میں کمیونزم کے مخالفین کے طور پر مقبولیت حاصل کی، جسے 1917 کے روسی انقلاب کے بعد سے بہت سے لوگوں نے ایک خطرے کے طور پر دیکھا۔ درحقیقت، مغربی ممالک میں، کمیونزم کے گہرے شک نے سوویت یونین کے ساتھ ایک طاقتور سیاسی اور فوجی اتحاد قائم ہونے سے روکا، جس سے بالآخر جنگ سے بچا جا سکتا تھا۔

جرمنی کو دوبارہ مسلح کرنے کی اجازت دینا خوشامد کی پالیسی کا حصہ تھا

ہٹلر نے وعدہ کیا کہ ورسائی معادہ کے ذریعے جو اُنکی تذلیل کی گئی اُسکا بدلہ لیا جائے گا اور جرمنی کو دوبارہ عظیم بنایا جائے گا۔ بہت سے جرمنی کے لوگوں کا خیال تھا کہ انہیں پہلی جنگِ عظیم میں فوج کی اعلیٰ کمان نے دھوکہ دیا تھا اور وہ جنگ کے بعد غیر موثر اتحادی حکومتوں کے لامتناہی دور سے تھک چکے تھے۔ ہٹلر نے، اشرافیہ سے تعلق نہ رکھتے ہوئے نئی شروعات کی پیشکش کی، اور سب سے بڑھ کر جب بے روزگاری اور غربت انتہائی بلند سطح پر تھی ملازمتوں اور روٹی کا وعدہ کیا۔ نازی پارٹی نے ایک متحرک معیشت کا وعدہ کیا کہ وہ جرمنی کی توسیع کے ساتھ ساتھ اُسے طاقتور بنائے گی۔ اِسے ایک شاندار کوشش کے طور پر دیکھا جائے گا جس میں جنگ کا پہلو اور خوبیاں بھی شامل ہون گی۔ تحریک نے جرمن لوگوں کیلئے رہنے کی جگہ کی ضرورت ظاہر کی (جرمن زبان میں لیبنسرام Lebensraum (living space) کا للفظ اِستعمال کیا گیا)۔ (اُنکا بیانیہ تھا کہ نئی زمینیں ہوں گی جہاں وہ خوشحال ہوں گے۔ تحریک نے یہودیوں، سلاوؤں (مرکزی اور مشرقی یورپ میں رہنے والے مُختلف طبقوں کے مِلے جُلے لوگوں کا گروپ)، کمیونسٹوں اور ٹریڈ یونینسٹوں (فیکٹریوں میں کارکنان کی یونین) کو اپنا بُنیادی اور حقیقی دُشمن سمجھا اور یہ جانا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو جرمنی کو اس کی مکمل صلاحیت کے ادراک سے باز رکھے ہوئے ہیں ۔ نازی ازم نے ایک بین الاقوامی جدوجہد کا مطالبہ کیا جہاں جرمن اپنی منزل حاصل کر سکیں اور خود کو ماسٹر ریس (اعلؐ درجہ کا معاشی طبقہ) ثابت کر سکیں۔ اِن دلائل کے پیش نظر جِن میں سے کوئی بھی بے بُنید نہیں اس کا مطلب تھا کہ جنگ ناگزیر تھی۔ مطلق العنان حکومتوں کو جنگوں کی ضرورت ہوتی ہے اور لبرل جمہوریتوں کو خوشحالی کے لیے امن۔ یہ بات سرسری، سادہ بھی ہو سکتی ہے لیکن اِس میں صداقت کا پہلو بھی ہے۔ ہٹلر نے وعدہ کیا تھا کہ نیا تیسرا دور تقرعباؐ 1,000 سال تک قائم رہے گا۔ متبادل نظریات کے پروپیگنڈے، شو اور وحشیانہ جبر کا استعمال کرتے ہوئے، بہت سے لوگوں نے اس پر یقین کیا کیونکہ اس نے جرمنی اور آسٹریا میں طویل عرصے سے جاری نظریات کو مہارت کےساتھ استعمال کیا۔جیسا کہ(ایف میکڈوناF. McDonough) کا کہنا ہےہٹلر جدید آلات کے ایک پُرانی دھن کا ڈرمر تھا(93)،

جنوری 1933 میں جرمن صدر پال وان ہنڈنبرگ Paul von Hindenburg (1847-1934) نے دیگر تمام آپشنز ختم ہونے کے بعد ہٹلر کو چانسلر بننے کی دعوت دی۔ کسی بھی اپوزیشن کو منظم طریقے سے کچلنے کے بعد، ہٹلر نے اپنی ملکی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانا اور ایک مطلق العنان حکومت قائم کرنا شروع کر دی،جیسا کہ اُسنےاپنی کتاب (My Struggle) میں لکھا تھا ۔ جب اگست 1934 میں ہنڈن برگ کا انتقال ہو گیا تو ہٹلر نے صدر اور چانسلر کے عہدوں کو مؤثر طریقے سے ضم کر دیا اور خود کو جرمنی کا رہنما قرار دیا۔ ہٹلر ریاست بن چکا تھا، اور اپنے ناممکن خواب کو پورا کرنے کے لیے اب اس کے لیے جو کچھ درکار تھا وہ جرمنی کو پھر سے مسلح کرنا تھا ۔

Bismarck at Sea
بِسمارک سمندر میں
Bundesarchiv, Bild 193-04-1-26 (CC BY-SA)

جرمنی کی پھر سے اسلحہ سازی

ہٹلر ملک کی مسلح افواج کی تعمیر نو کے لیے پرعزم تھا۔ ورسیلز کی پابندیوں کے باوجود دوبارہ اسلحہ سازی بڑے اضافی پیمانے پر کی گئی۔ ہٹلر نے ورسیلزمعادہ مارچ 1935 میں باضابطہ طور پر مسترد کردیا۔ فوج پہلے ہی اجازت سے چار گنا زیادہ تھی۔ بالآخر، مغربی طاقتوں کو نقصان کی حد بندی کا طریقہ اختیار کرنا پڑا۔ جون 1935 میں، اینگلو-جرمن بحری معاہدے پر دستخط ہوئے، جس نے جرمن بحریہ کی طاقت کو رائل نیوی کے 35 فیصد تک محدود کر دیا اور ہٹلر کو جنگی جہاز بسمارک جیسے بڑے نئے بحری جہاز بنانے کی اجازت دی۔

ہٹلر کے فرقہ کی فرقہ پرستی کی مثال یہ ہے کہ، تمام مسلح افواج کے اہلکاروں کو ذاتی طور پر ہٹلر کی وفاداری کا حلف اٹھانا پڑا۔ دوبارہ اسلحہ سازی کی بدولت جرمنی نے 1938 تک تقریباً روزگارکا معاری حدف حاصل کر لیا تھا۔ ہٹلر نے جرمن عوام سے جو وعدے کئے تھے وہ تمام پُورے کر دیے تھے۔ اسلحہ سازی کی یقیناؐ ایک قیمت تھی جِسکے لئے خام مال کی بھاری درآمدات کی ضرورت تھی، اور ان کو زیادہ عرصہ تک نہیں خریدا جا سکتا تھا کیونکہ 1939 سے جرمنی کا توازن ادائیگی جھک گیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ جرمنی کو اپنے دشمنوں پر ہتھیاروں کی برتری حاصل تھی، لیکن یہ صورت حال زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔ لہازہ ہٹلر کے لئے حملہ کرنے کا ہی موقع تھا۔

خوشامد

جرمنی کو دوبارہ مسلح کرنے کی اجازت دینا خوشامدی پالیسی کا حِصہ تھا۔ جنگ کی مکمل تباہی سے بچنے کے لیے معقول رعایتیں دینے کی خوشامدی پالیسی کا برطانیہ، فرانس اور امریکہ نے تعاقب کیا۔ اس کا مطلب کسی بھی قیمت پر امن نہیں تھا۔ پالیسی کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ اس نے قدم بہ قدم جارح طاقتوں کو یہ تاثر دیا کہ ان کی مسلسل جارحیت ضروری نہیں کہ وسیع جنگ کا باعث بنے۔ ان اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں 1930 کی دہائی کے اوائل میں عالمی سیاست کو دیکھنا ہو گا۔

League of Nations Cartoon
لیگ آف نیشنز کارٹون
Leonard Raven-Hill (Public Domain)

لیگ آف نیشنز (آج کی اقوامِ مُتحدہ کی پیشرو) عالمی جنگ کے بعد قائم کیا گیا تھا تا کہ بین الا قوامی تنازعات کا تصفیہ ہو اور عالمی امن برقرار رہے۔ اگرچہ امریکی صدر ووڈرو ولسن Woodrow Wilson (1913-21) نے لیگ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا، لیکن اہم بات یہ ہے کہ، ریاستہائے متحدہ اس میں کبھی شامل نہیں ہوا، اِس سے تنظیم خاصی کمزور ہُوئی۔ جرمنی 1926 میں شامل ہوا لیکن 1933 میں چھوڑ گیا۔ جاپان بھی ُاسی سال چھوڑ گیا۔ لیگ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی، جیسا کہ ستمبر 1931 میں منچوریا Manchuria پر جاپان کے حملے اور اکتوبر 1935 میں اٹلی کے ابیسینیا Abyssinia (Ethiopia) پر حملے کو روکنے میں ناکامی۔ بِلا شُبہ ہٹلر نے اِن واقعات اور لیگ کے اراکین کے ردِ عمل کا بخوبی جائزہ لیا اور اپنی افواج کو مُزید بڑھانے کے ساتھ ساتھ سرحدوں کو بھی بڑھایا۔

ہٹلر نے(1933–1935) ایک مبہم خارجہ پالیسی کی پیروی کی۔ بعض اوقات یہ وعدہ کیا کہ وہ پرامن ارادے رکھتا تھا ۔ اس نے جنوری 1934 میں پولینڈ کے ساتھ امن معاہدے جیسی سفارتی سازشوں سے الجھن پیدا کی اور اسی سال کے بعد ایک بیان کہ اس کا آسٹریا کو ریخ میں ضم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ( ریخ جرمن لفظ جِسکے معنی سلطنت کے ہیں یعنی جرمن)۔ پھر1935 سے، اس کے منصوبے پہلے سے زیادہ واضح ہوتے گئے، یہاں تک کہ کچھ مورخین کہتے ہیں کہ اِسکا منصوبہ نہیں تھا لیکن وہ محض موقع سے فائدہ اٹھا رہا تھا جیسا کہ اس کے دشمنوں نے انہیں پیش کیا۔ کچھ مورخین کا دعویٰ ہے کہ ہٹلر نازی پارٹی میں انتشار اور دھڑے بندی کی وجہ سے آزاد نہیں تھا۔

مارچ 1935 میں، سار(کوئلہ پیدہ کرنے والا علاقہ) کو ایک رائے شماری کے بعد جرمنی کے ساتھ دوبارہ ملایا گیا۔ اسی سال بھرتی کا اعلان کیا گیا۔ مارچ 1936 میں جرمنی نے رائنلینڈ (Rhineland) پر قبضہ کر لیا۔ اکتوبر میں، جرمنی اور اٹلی باضابطہ اتحادی بن گئے۔ نومبر 1936 میں، اٹلی اور جرمنی (اور بعد میں جاپان) نے اینٹی کمنٹرن (Anti-Comintern) معادہ پر دستخط کیے، جو سلطنت کی تعمیر میں باہمی تعاون کا معاہدہ اور کمیونزم کے خلاف متحدہ محاذ تھا۔ مارچ 1938 میں، ہٹلرنے آسٹریا کا باضابطہ الحاق حاصل کر لیا۔ لیگ آف نیشنز کے مضبوط ردِ عمل کی کمی سے حوصلہ لیتے ہوئے، ہٹلر نے پھر سوڈیٹن لینڈ (Sudetenland) پر قبضہ لر لیا۔ چیکوسلواکیہ کے صنعتی علاقے جسکی جرمنی کے ساتھ سرحد مشترک تھی اور وہاں جرمن اقلیت تھی اُسکا بہانہ بناتے ہوئے کہ اُسے دبایا جا رہا ہے، اُس پر قبضہ کر لیا۔ ایک بار پھر، فرانس اور سوویت یونین کے چیکوں کے ساتھ امداد کے معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود مغربی طاقتوں نے کوئی فوجی ردعمل نہیں دیا۔ ستمبر 1938 کا میونخ معاہدہ جرمنی، فرانس، اٹلی اور برطانیہ کے درمیان ہوا، جس نے جرمنی کی نئی، توسیع شدہ سرحدوں کو قبول کیا۔ یو ایس ایس آر کو مدعو نہیں کیا گیا، فاشزم کے خلاف متحدہ محاذ پیش کرنے کا ایک کھویا ہوا اور آخری موقع - شاید یہ کسی بھی ممکنہ حکمت عملی کو چھوڑ کر خوشامد کی پالیسی پر عمل کرنے کی اصل قیمت تھی۔ برطانوی وزیر اعظم نیویل چیمبرلین (1937-40 کے دوران خدمات انجام دیں)، صحافیوں کے سامنے ہٹلر کے دستخط شُدہ کاغذ کے ٹکڑے کو پھڑپھڑاتے ہوئے اعتماد کے ساتھ اعلان کیا کہ اس نے "عزت کے ساتھ امن" حاصل کر لیا ہے (ڈیئر، 597) اور یہ کہ اب ہمارے پاس "اپنے زمانے میں امن ہے(میکڈونا، 121) چیمبرلین کو اس سال کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔

Chamberlain, Daladier, Hitler, & Mussolini, Munich 1938
چحیبرلین، دلادئیر، ہٹلر اور میسولینی، میونخ مارچ 1938
Bundesarchiv, Bild 183-R69173 (CC BY-SA)

برطانیہ اور فرانس نے ہٹلر کو کیوں خوش کیا؟ مطمئن کرنا مغربی رہنماؤں کے لیے ایک پرکشش پالیسی تھی کیونکہ آخری جنگ کی ہولناکیاں ابھی تک ہر ایک کے ذہن میں تازہ تھیں۔ فرانس، خاص طور پر، اس دور میں سیاسی طور پر کمزور تھا، جس نے 1930 کی دہائی تک 16 اتحادی حکومتوں کا تجربہ کیا۔ برطانیہ کو خدشہ تھا کہ اگر ایک اور عظیم جنگ سے کمزور ہو گیا تو وہ اپنی سلطنت کھو دے گا۔ رائے عامہ برطانیہ، فرانس اور امریکہ میں جنگ اور دوبارہ اسلحہ سازی کے خلاف زبردست تھی۔ اس کے علاوہ، یہ کسی بھی طرح سے یقینی نہیں تھا کہ ہٹلر جرمنی کی سرحدوں کو بڑھانا جاری رکھے گا۔ کیونکہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ جرمنی کو اس کے سابقہ ​​علاقوں (یعنی جنگِ عظیم اول سے پہلے کی حدود) میں بحال کرنے کے علاوہ اس کے کوئی اضافی عزائم نہیں تھے۔ آخر کار، خوشامدی پالیسی اپنانے میں اگر کامیابی کا امکان نہ بھی نظر آتا ہو، تو بھی اِس پالیسی کی وجہ سے مغربی طاقتوں نے کُچھ وقت حاصل کر لیا کہ وہ جرمنی کی کامیابی اور اسلحہ سازی کی پیروی کرے۔

برطانیہ اور فرانس میں بھی ایسی مضبوط لابیاں تھیں جو معاشی طور پر پریشان کن اوقات میں دوبارہ اسلحہ سازی کو وسائل کا ضیاع سمجھتی تھیں اور اس بات کی نشاندہی کرتی تھیں کہ جرمنی اپنی برآمدات کے لیے برطانیہ کا پانچواں بڑا گاہک تھا ۔واقعات کے رُونما ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ مطمئن کرنا حماقت تھی کیونکہ ہٹلر زیادہ سے زیادہ یورپ پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا جتنا وہ کر سکتا تھا، اور معاہدوں کو توڑنے کے اس کے ٹریک ریکارڈ نے ثابت کیا کہ مذاکرات بے معنی تھے۔ پولینڈ کے حملے کے مقابلے میں چیک کی بھاری صنعت کو جرمن ہاتھوں سے دور رکھنا بہتر تھا، لیکن برطانیہ، فرانس اور سوویت یونین اس وقت جنگ کے لیے تیار نہیں تھے کیونکہ 1939 تک ان ممالک نے سنجیدگی سے جنگ کے لیے معیشتیں بہتر کرنا شروع نہیں کیں۔

پولینڈ پر حملہ

جرمنی اور اٹلی کی طرف سے زیادہ سے زیادہ یورپ پر قبضہ کرنے کی کوشش1939 میں مزید اہم سرگرمیاں ہوئیں۔ مارچ 1939 میں جرمنی نے باقی چیکوسلواکیہ اور میمل (لتھوانیا کا حصہ) کو تھرڈ ریخ میں(ضم کرنا) شامل کر لیا۔ جرمن یہودیوں پر نازیوں کے حملوں سے بڑھتے ہوئے خوف زدہ مغربی طاقتوں نے اب یہ سوال کرنا شروع کر دیا کہ کیا ایسی حکومت کے ساتھ بات چیت اخلاقی بنیادوں پر کبھی جائز ہو سکتی ہے۔

خوشامد کی پالیسی آخر کار ناکام ہوئی۔ 31 مارچ کو، برطانیہ اورفرانس نے پولینڈ کی سرحدوں کی ضمانت دینے کا وعدہ کیا، اور اپریل میں، اسے رومانیہ تک بڑھا دیا گیا۔ ترکی اور یونان نے بھی برطانیہ اور فرانس کے ساتھ باہمی تحفظ کی بات چیت شروع کی۔ آخر کار برطانیہ اور فرانس کے لیڈروں پر یہ بات آ گئی کہ فاشسٹ کسی بھی قیمت پر علاقائی توسیع کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہاں پہلے ہی ایک مقامی جنگ چل رہی تھی، 1936-39 کی ہسپانوی خانہ جنگی، جس میں ایک طرف جرمن اور اطالوی فوجی ہارڈ ویئر اور دوسری طرف سوویت امداد براہ راست شامل تھی۔ اپریل میں اٹلی نے البانیہ پر قبضہ کر لیا۔ اسی مہینے کے آخر میں، ہٹلر نے اینگلو-جرمن بحری معاہدے کو مسترد کر دیا۔ مئی 1939 میں، اٹلی اور جرمنی نے ایک فوجی اتحاد، ’پیکٹ آف اسٹیل‘ (سیاسی اور ملٹری بُنیاد) پر دستخط کیے تھے۔

اگست 1939 میں، جرمنی نے سوویت یونین کے ساتھ ایک غیر جارحیت کے معاہدے پر اتفاق کیا Molotov-Ribbentrop Pact (نازی-سوویت معاہدہ)، جس کا نام ریاستوں کے وزرائے خارجہ کے نام پر رکھا گیا ۔ سوویت رہنما جوزف اسٹالن (1878-1953) کو اس بات کا زیادہ احساس تھا کہ برطانیہ اور فرانس ہٹلر کو اس وقت تک مطمئن کرنے کے لیے مکمل طور پر آمادہ نظر آتے تھے جب تک کہ وہ مشرق کی طرف بڑھے۔ فریقین کے درمیان اعتماد کی کمی کی وجہ سے 'اجتماعی سلامتی' (برطانیہ، فرانس اور یو ایس ایس آر کے ساتھ مل کر کام کرنے) کے امکان کو محسوس نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس، نازی سوویت معاہدے نے سٹالن کو مشرقی پولینڈ پر قبضہ کو تھوڑی دیر کے لیے جنگ سے دور رکھنے کی اجازت دی، جس سے دوبارہ سوویٹ یونین کو ہتھیار بنانے کے لیے قیمتی وقت حاصل ہوا۔ شاید، جرمنی کے لیے برطانیہ اور فرانس کے خلاف صرف مغرب میں جنگ کرنے کا امکان ہٹلر کے لیے اسٹالن کا ایسے ہی تھا جیسے 'بلینک چیک' جو ان کو کافی حد تک کمزور کر دے گا تاکہ وہ سوویت یونین کیلئے مزید خطرہ نہ بن سکیں۔

Explosion of USS Shaw, Pearl Harbour
یو ایس ایس شاہ کی تباہی، پرل ہاربر
Unknown Photographer (Public Domain)

یورپ ایک ٹنڈر باکس تھا جو ایک چنگاری کا انتظار کر رہا تھا جو اسے جنگ کی صُورت میں تبدیل کر سکتا تھا۔ یکم ستمبر 1939 کو جرمنی کے پولینڈ پر حملے کے بعد چنگاری جلد ہی سُلگ گئی۔ اگلے دن چیمبرلین نے خبردار کیا کہ اگر جرمنی پیچھے نہ ہٹتا ہے تو جنگ ہو گی۔ ہٹلر نے الٹی میٹم کو نظر انداز کیا۔ 3 ستمبر کو برطانیہ اور فرانس نے آزاد اور خودمختار ممالک کے تحفظ کے لیے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ اٹلی، پروں میں انتظار کر رہا تھا کہ اس کے فائدے میں کیا ہو سکتا ہے، فی الحال غیر جانبدار رہا۔ دنیا بھی، سانسوں کے ساتھ انتظار کر رہی تھی کہ آگے کیا ہو گا۔ غیر متوقع جواب کچھ بھی نہیں تھا۔

عالمی جنگ

اتحادی اور محوری طاقتیں براہ راست ایک دوسرے کے آمنے سامنے نہیں تھیں۔ 'فونی جنگ' (جنگ کا اِبتدائی دور) اپریل 1940 تک جاری رہی جب جرمنی نے ناروے پر حملہ کیا۔ مئی میں جرمنی نے(Low countriies ) (بلجیم، لکثمبرگ اور ندرلینڈ) اور فرانس پر حملہ کر دیا۔ جرمنی نہ رکنے والا ثابت ہوا اور جون کے آخر تک فرانس پسپا ہو چکا تھا۔ اکتوبر میں اٹلی نے یونان پر حملہ کر دیا۔ 1941 میں جرمنی نے یوگوسلاویہ پر قبضہ کر لیا۔ جون 1941 (آپریشن بارباروسا) ہٹلرکے سوویت یونین پر حملہ کرنے تک برطانیہ کو اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لیے تنہا تھا۔

جنگ ایک عالمی تنازعہ بن گئی جب جاپان نے 7 دسمبر 1941 کو پرل ہاربر، ہوائی میں امریکی بحری بیڑے پر حملہ کیا۔ جاپان نے پہلے ہی چینی قوم پرستی کی تشویش کے پیش نظر مشرقی چین پر حملہ کر دیا اور پھر سامراجی شان و شوکت اور قدرتی وسائل خصوصاً تیل کی تلاش میں جنوب مشرقی ایشیا کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا، جس کی درآمد پر امریکی پابندیاں عائد تھیں۔ جاپان کو شاید امید تھی کہ یورپ میں ہونے والے واقعات ان کے خلاف کسی بھی براہ راست ردعمل کو روکیں گے، لیکن آخر کار امریکہ اس تنازع میں شامل ہو گیا۔ ۔ امن اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکا جب تک دنیا نے مزید چار طویل اور تلخ سال جنگی حالات میں نہ گُزارے۔

سوالات اور جوابات

مترجم کے بارے میں

Samuel Inayat
I began my professional career in July 1975 by joining a government service in scale 10 and continued till I retired in June 2013 in scale 17 after rendering 40 years unblemished service. Most of my service was as a Civil Servant.

مصنف کے بارے میں

Mark Cartwright
مارک اٹلی کا ایک تاریخ پر لکھنے والی لکھاری ہے۔ ان کی دلچسپی کا مرکز کوزہ گری، فن تعمیر، عالمی اساطیری روایات اور ایسے خیالات تلاش کرنا ہے جو کہ مخلتلف تہذیبوں میں ایک جیسے ہیں۔ ان کی سیاسی فلسفہ میں ماسٹر ڈگری ہے اور وہ گھروں کے عالمی دائرۃ المعارف میں طباعت کے ڈائریکٹر ہیں۔

اس کام کا حوالہ دیں

اے پی اے اسٹائل

Cartwright, M. (2024, March 26). دُوسری جنگِ عظیم کے اسباب [The Causes of WWII]. (S. Inayat, مترجم). World History Encyclopedia. سے حاصل ہوا https://www.worldhistory.org/trans/ur/2-2409/

شکاگو سٹائل

Cartwright, Mark. "دُوسری جنگِ عظیم کے اسباب." ترجمہ کردہ Samuel Inayat. World History Encyclopedia. آخری ترمیم March 26, 2024. https://www.worldhistory.org/trans/ur/2-2409/.

ایم ایل اے سٹائل

Cartwright, Mark. "دُوسری جنگِ عظیم کے اسباب." ترجمہ کردہ Samuel Inayat. World History Encyclopedia. World History Encyclopedia, 26 Mar 2024, https://www.worldhistory.org/article/2409/the-causes-of-wwii/. ویب. 24 Jun 2025.