جنگ بكسر

آرٹیکل

Mark Cartwright
کے ذریعہ، ترجمہ Zohaib Asif
دوسری زبانوں میں دستیاب: انگریزی, فرانسیسی, ہسپانوی
آرٹیکل پرنٹ کریں PDF

22-23 نومبر 1764 کو ہکٹر منرو (1726-1805) کی سربراہی میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج نے شمال مشرقی ہندوستانی صوبے بہار کے علاقے بکسر میں نوابِ اودھ، نوابِ بنگال اور مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی (دور حکومت 1760 تا 1806) کی مجموعی افواج کو مات دی۔

تمام تر توقعات کے برخلاف بکسر کی جنگ میں فتح حاصل کرنے کے نتیجے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو مختلف خطوں میں ٹیکس بڑھانے کے لیے اہم حقوق حاصل ہوئے، جس سے کمپنی کے خزانے میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، جس نے اسے پورے برصغیر میں فتوحات کے مزید جھنڈے گاڑھنے کی اجازت دے دی

Hector Munro
ہکٹر منرو
David Martin (Public Domain)

ایسٹ انڈیا کمپنی کی توسیع

ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد 1600 میں رکھی گئی تھی، اور اٹھارویں صدی کے وسط تک، یہ ہندوستان میں اپنی تجارتی اجارہ داری سے فائدہ اٹھا کر اپنے حصہ داروں کو مزید امیر بنا رہی تھی۔ کمپنی مؤثر طور پر ہندوستان میں برطانوی حکومت کی نوآبادیاتی شاخ تھی، لیکن اس نے اپنی ذاتی فوج کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ کیا اور قائم برطانوی افواج سے فوجیوں کی بھرتیاں کی۔ 1750 کی دہائی تک، کمپنی اپنے تجارتی نیٹ ورک کو وسعت دینے اور برصغیر میں علاقائی تسلط حاصل کرنے کے مقصد کو تکمیل تک پہنچانے میں پرجوش طریقے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہتی تھی

مغل شاہ بنگال کو بہتر طریقے سے قابو کرنے، اس کے نظم و نسق کو احسن انداز میں چلانے اور اسے کمپنی کے چنگل سے نجات دلانے پر بضد تھا

رابرٹ کلائیو (1725-1774) نے جون 1757 میں پلاسی کی جنگ میں بنگال کے حکمران نواب سراج الدولہ (پیدائش 1733) کے خلاف فتح حاصل کر کے کمپنی سرکار کے اثر و رسوخ کو مزید مضبوط کر دیا۔ نواب کی جگہ ایک کٹھ پتلی حکمران کو نافذ کر دیا گیا، ریاستی خزانے کے ایک بڑے حصے کو ضبط کر لیا گیا اور بنگالی رعایا کے وسائل کو غصب کرنا شروع کر دیا گیا۔ 'کلائیو آف انڈیا' کو فروری 1758 میں پہلی مرتبہ بنگال کا گورنر بنایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ کلائیو اسی عہدے پر بعد ازاں 1764 میں بھی متمکن ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا جب برطانوی سامراجی نظام میں اپنا نام کندہ کرنے کے لیے میجر ہکٹر منرو میدان میں کود پڑا۔

ہندوستانی حلیف

EIC کو تین طاقتور ریاستوں کے مشترکہ اتحاد کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے پہلے، شمالی ہندوستان کے وسطی گنگا کے علاقے میں موجود ریاست اودھ، جس پر مغل سلطنت (1526-1857) کے برائے نام حاکمیت کے تحت نواب اپنی ذاتی اجارہ داری قائم کیے تھے۔ اودھ کا دارالحکومت لکھنؤ تھا، جو اپنے عمدہ فن تعمیر کے لیے جانا جاتا تھا، اس ریاست میں دولت کی ریل پیل تھی، اور موجودہ نواب شجاع الدولہ (دور حکومت 1754-1775) تھا۔ دوسرا اتحادی بنگال کے سابق نواب میر قاسم (1760-1764) تھا۔ قاسم کمپنی سرکار اور نجی افراد دونوں کو تجارتی مراعات دینے کے لیے کمپنی کی جانب سے دباؤ کا مقابلہ کرنے والے تھے۔ جب کمپنی پہادر نے قاسم کو نواب کے عہدے سے معزول کر کے ان کے اپنے ہی خسر کو نواب مقرر کیا تو میر قاسم کمپنی سرکار کے اس عمل کا جواب ایک فیصلہ کن انداز میں دینے کا ارادہ رکھتا تھا۔ قاسم 1760 سے ہندوستان کے شمال مشرق میں اس بے پناہ امیر علاقے کا حکمران تھا، اور وہ اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے بے چین تھا۔ اس اتحاد کے تیسرے رکن مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی تھے۔ دہلی میں مقیم شہنشاہ عام طور پر کمپنی اور جاگیردار ریاستوں کے درمیان تنازعات میں براہ راست مداخلت نہیں کرتا تھا، لیکن اب وہ بنگال کو بہتر طریقے سے قابو کرنے اور اسے کمپنی کے چنگل سے نجات دلانے پر بضد تھا

Robert Clive & The East India Company Rule in India, c. 1765
رابرٹ کلائیو اور ہندوستان میں کمپنی کی حکومت 1765
Simeon Netchev (CC BY-NC-ND)

شہنشاہ شاہ عالم ثانی نے، پٹنہ کو کمپنی کو قبضے سے چھڑانے کی کوشش میں منہ کی کھانے کے بعد، ایک منجھی ہوئی اور بہترین عسکری تربیت سے لیس فوج کو منظم کیا اور براعظم کے مشرقی حصے کی طرف کوچ کر گیا۔ اس کی فوج کے پیادے کی کمان شاطر فرانسیسی جرنیل یاں بیپٹسٹ جینٹل کے پاس تھی۔ شجاع الدولہ اور میر قاسم کی قیادت میں افواج نے شاہ عالم کی اجواج کے ساتھ شامل ہو گئیں۔ کل لشکر کی تعداد 50,000 کے قریب ہو سکتی ہے۔ فوج نے مون سون کے ابتدائی موسم میں پیش قدمی شروع کی، اور شاہ عالم نے اودھ اور بنگال کی سرحد پر قلعہ بکسر کے قریب خیمہ زن ہونے کا حکم صادر کیا۔ قیام کے لیے اس جگہ کا انتخاب ایک بہترین فوجی حکمت عملی کا نتیجہ تھا چونکہ اس کے بائیں جانب بہنے والا دریائے گنگا اسے قدرتی طور پر اس طرف سے حفاظت مہیا کرتا تھا، مزید یہ کہ دائیں طرف بہنے والا تورہ نالہ اس سمت سے بھی اسے محفوظ رکھتا تھا، اور سامنے موجود مٹی کے پشتے بھی اس سلسے میں ایک مثبت کردار ادا کر رہے تھے۔ شہنشاہ سلامت نے بنگال میں پیش قدمی کو مون سون کی بارشوں کے انحطاط تک ملتوی کر دیا

منرو کا لشکر

جنگ کا پانسہ پلٹںے میں صرف ایک عنصر نے کلیدی کردار ادا کیا اور وہ تھا نظم و ضبط پر میجر منرو کا حد سے زیادہ زور دینا۔ اس نظم و نسق سے مراد جنگی افراتفری اور طوائف الملوکی کے عالم میں بھی احکامات کی پیروی کرنا اور لشکی کی عسکری ترتیب کو برقرار رکھنا تھا۔

جیسے ہی باد صبا اس عظیم الشان لشکر کی خبر لے کر کمپنی سرکار کے ہیڈ کوارٹر تک پہنشیچی، تعجیل سے کام لیا گیا اور فوری طور پر عسکری انتظامات کیے جانے لگے۔ میجر ہیکٹر منرو کو اس سہ لشکری اتحادی فوج کا سامنا کرنے کے لیے کمپنی سرکار کی فوج کی قیادت کرنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ چونکہ کمپنی سرکار کی فوج کو جنگ کے خطرے سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار نہیں کیا گیا تھا، اس لیے منرو کے پاس حزب اختلاف کی کمان کرنے کے لیے دشمن کے مقابلے میں جو فوج تھی وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ تھی: کچھ مورخین کے مطابق اس کے پاس صرف محض 4,200 افراد تھے (جن میں سے 3,000 سپاہی یا ہندوستانی فوجی تھے) ، دیگر مورخین قیاس آرائی کرتے ہیں کہ تقریباً 900 یورپی اور7,000 ہندوستانی نژاد سپاہی تھے۔ منرو کے پاس ایک ہزار افراد پر مشتمل چاق و چوبند گھڑ سوار دستہ بھی تھا۔ عددی لحاظ سے کمتر ہونے کے باوجود، انگریز فوج کا پلڑا دو حوالوں سے مغل فوج پر بھاری تھا۔ اول یہ کہ، شاہ عالم بکسر میں اپنے کیمپ میں سہل انگاری اور کاہلی کا مظاہرہ کر کے بیش بہا قیمتی وقت کا ضیاع کر رہے تھے، جس نے اس کے لشکر کو تن آسانی اور الکس کا شکار ہونے دیا۔ مزید برآں، اس غیر سنجیدہ رویے نے ان کے سامان حرب کو بھی ناقص کر دیا۔ دوسرا فائدہ خود ہیکٹر منرو کی شخصیت کی صورت میں انگریز فوج کو ملا۔ مورخ ولیم ڈیلریمپل نے کمپنی سرکار کے اس میجر کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے سخن طرازی کرتے ہیں: "ہندوستان میں سب سے زیادہ موثر برطانوی افسران میں سے ایک، مزاجاََ پر سکون اور آرمیدہ لیکن کام کے حوالے سے سکاٹ لینڈ کے پہاڑوں سے نسبت رکھنے والے اس 38 سالہ شخص سے ظالم اور سفاک شخص کا سایہ اس زمین پر نہ پڑا ہوگا" (197 تا 198)۔ جنگ کا پانسہ پلٹںے میں صرف ایک عنصر نے کلیدی کردار ادا کیا اور وہ تھا نظم و ضبط پر میجر منرو کا حد سے زیادہ زور دینا۔ اس نظم و نسق سے مراد جنگی افراتفری اور طوائف الملوکی کے عالم میں بھی احکامات کی پیروی کرنا اور لشکی کی عسکری ترتیب کو برقرار رکھنا تھا۔ منرو نے 9 اکتوبر کو بانکی پور کو خیر آباد کیا اور 22 اکتوبر کو بکسر کی مٹی نے اس کے قدموں کا بوسہ لیا

Shuja-ud-Daula, Nawab of Awadh
اودھ کے نواب، شجاع الدولہ
Tilly Kettle (Public Domain)

جنگ کی تفصیل

جب برطانوی فوج ایک طویل سفر کے بعد بکسر پہنچی تو ان کے چہروں سے تھکان کے آثار نمایاں تھے۔ فرانسیسی جرنیل نے اس موقع کو غنیمت جانا اور شاہ عالم کو باور کروایا کہ حملہ کرنے کا یہی موزوں موقع ہے۔ جنٹیل نے ان الفاظ میں بادشاہ کی منت سماجت کی

چونکہ انگریز ابھی جنگ کے لیے صف آرا نہیں ہوئے، چونکہ بجرے ابھی تک اپنے ہتھیار اور فوجی سازوسامان اتارنے کے لیے دریا کے کنارے لنگر آرا نہیں ہوئے ہیں۔ چونکہ فوج کے تمام افراد اپنے اپنے خیمے نسب کرنے میں مشغول ہیں اور ان کا دھیان جنگ کے علاوہ تمام معاملات کی جانب ہے، جنگ کرنے کا یہی موزوں ترین موقع ہے

(ڈیرلمپل، 198)

بادشاہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور اس نے حملہ کرنے کا یہ قیمتی موقع کنوا دیا۔ یہی نہیں، اس کا پورا دھیان صرف اس امر کو یقینی بنانے میں تھا کہ اس کا تمام تر خزانہ اور اس کے حرم کی خواتین صحیح سلامت فیض آباد پہنچ جائیں۔ ایسا قوی امکان ہے کہ بادشاہ کا دفاعی انداز میں جنگ لڑنے کا ارادہ ہو لیکن یہ دیکھتے ہوئے کہ برطانوی فوج تو انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے، اس نے صبح صادق کے فوراََ بعد حملہ آور ہونے کا حکم صادر کر دیا۔ اس وقت تک منرو اپنی تھوڑی لیکن باتربیت فوج کو جنگی لحاظ سے مرتب و منظم کر چکا تھا۔ اب وقت تھا کہ توپوں کے گولے شاہی لشکر کے پرخچے اڑا دے اور ایسا ہی ہوا۔ جواباََ بادشاہ نے گھڑ سوار دستے کو میدان مارنے کا حکم دیا۔ اس سے گھڑ سوار دستہ جو پہلے اپنی افواج کے خیموں کی حفاظتی دیواروں پر مامور تھا، ان دیواروں کو رب کے حوالے کر کے پیش قدمی کرنے لگا۔ شہنشاہ نے اپنے توپ خانے کی نالیوں کو بھی بارود کی برسات کرنے کا حکم دے دیا۔ ہندوستانی توپیں جسامت میں بڑی تھیں اور اس لیے بھاری گولے چلانے کی اہل تھیں، لیکن برطانوی فوج کو یہ فائدہ حاصل تھا کہ ان کی توپیں متحرک تھیں، یعنی ہندوستانی توپیں جو کہ ساکن تھیں اور پوری جنگ کے دورانیے میں ایک ہی مقام پر متمکن رہتی تھیں، یہ برطانوی توپیں حسبِ ضرورت میدان جنگ میں اپنی جگہ بدلتی رہتی تھیں۔ دشمن مے مقابلے میں کمپنی سرکار کے توپ بردار بہتر طور پر تربیت یافتہ تھے اور کسی بھی وقت پر زیادہ گولے برسانے کی صلاحیت رکھتے تھے

دونوں افواج کے مابین موجود دلدل ہندوستانی گھڑ سوار دستہ کی پیش قدمی کو روکے ہوئے تھا۔ شہنشاہ کے ناگا اور افغان گھڑسوار دستے ایک متبادل رستے سے دلدل کو عبور کرتے ہوئے عقب سے برطانوی لشکر پر تلواروں اور نیزوں کی بوچھاڑ کرنے لگے۔ کمپنی کی کمک اور اضافی افواج، جو عام طور پر صرف جنگ کے اختتام پر ہی استعمال ہوتے تھے، اب ضرورت کے باعث شاہی گھڑ سوار دستوں کے روبرو موجود تھے اور ان کے خون سے اس گھڑ سوار دستے کی تلواریں رنگی جا رہی تھیں۔ اب اس گھڑ سوار دستے سے ایک گمبھیر خطا سرزد ہوئی اور وہ یہ تھی کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کرتے، انھوں نے برطانوی خیموں، ذخائر، خزانے اور اسلحہ بارود پر دھاوا بول دیا۔ اب لوٹ مار کے اس دور کے بعد، ہندوستانی اور افغان گھڑ سوار دستے میں دوبارہ فوج میں اپنی خدمات انجام دینا گوارا نہ سمجھا

Mughal Empire Sepoy
مغل حکومت کا سپاہی
Unknown Artist (Public Domain)

عقبی صفیں دشمن کے گھڑ سوار دستے کے نشانے پر تھیں اور انھیں اس دستے کی یلغار سے خود کو بچانا تھا، مزید یہ کہ برطانوی فوج کا ایک کثیر حصہ پہلے ہی گرفتار ہو چکا تھا، اور جو باقی ماندہ فوج تھی اور گولوں کی برسات کی زد میں تھی، یہ وہ قیمتی گھڑی تھی جب وہ نظم و نسق، وہ ضوابط و قواعد جن پر منرو ہمیشہ سے زور دیا کرتھا، ان کی اہمیت ثابت ہوئی۔ کمپنی کے دستوں نے، جن میں ہندوستانی نژاد سپاہی بھی شامل تھے، اپنی مربع شکل میں قائم کی گئی دفاعی ترتیب کو اہم طور پر برقرار رکھا یہاں تک اس وقت بھی، جب صورت حال اتنی پتلی ہو چکی تھی کہ شہنشاہ مطمئن ہو چکا تھا کہ اس نے دشمن کی فوج کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ منرو بجروں کو فوج کو دریا پار کروا کر پسپا ہونے کا حکم دے چکا تھا، لیکن اس حکم کو عملی جامہ پہنانے میں جو وقت لگا، اس میں میجر منرو پر ایک نکتہ واضح ہوا اور وہ یہ تھا ہندوستانی گھڑسوار دستے جنگ کی مال غنیمت کی لوٹ مار میں دھت تھے۔ اس صورتحال نے منرو کو ایک جوابی حملہ کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔ منرو نے اپنے لشکرکو اکٹھا کیا اور تفنگچوں (ہموار نالی والی بندوق جو کہ اوپر سے بھری جاتی ہے) کے مربوط فائر اور نظم و نسق کا سہارا لیتے ہوئے ہندوستانی فوج کے میمنہ (بائیں حصے) پر پوری شدت سے حملہ آور ہوا

انگریز فوج ایک عمودی صفت میں آگے بڑھے اور انھوں نے اپنے مخالفین کو تہہ تیغ کر دیا۔ انسانی چشم گواہ ہے کہ ہندوستانی لشکر جس میں افراد، اونٹ، بیل اور ہاتھی شامل تھے، ایسا پسپا ہوا جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس پسپائی سے صفوں میں بھگڈر مچ گئی۔ شہنشاہ کشتیوں سے بنے ایک عارضی پل کا استعمال کرتے ہوئے تورہ نالہ کو پار کر کے رفو چکر ہو گیا، جبکہ اس کے وفادار ناگا فوجیوں نے اپنی بہادری کا لوہا منوایا اوراقدامِ عقبی مُحافظ کے طور پر جواںمردی سے مقابلہ کیا۔ پسپا ہونے والے وہ ہندوستانی فوجی جو دوریا کے پار جانے میں کامیاب ہوئے انھیں کمپنی کے فوجیوں نے گھات لگا کر نشانہ لگایا اور اس طرح لگایا کہ دریا لاشوں سے لبریز ہو گیا۔ منرو نے شکست کو چکما دے کر فتح کے ہار کو اپنے گلے کی زینت بنا لیا

دونوں طرف سے بھاری جانی نقصان ہوا۔ کمپنی کے تقریباََ 850 افراد نے موت کا جام نوش کیا۔ اس عدد میں زخمی اور لاپتہ ہونے والے افراد بھی شامل ہیں۔ یہ تناسب غیر معمولی طور پر بہت زیادہ ہے (حالانکہ کچھ مورخین اس تناسب کو اور بھی زیادہ بیان کرتے ہیں، ان کے مطابق برطانوی فوج کا تقریباََ ایک چوتھائی حصہ لقمہ اجل بن گیا) شہنشاہ کی فوجوں کو شاید 5,000 سے زیادہ ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا (حالانکہ زیادہ قدامت پسند مورخین یہ تعداد 2,000 کے لگ بھگ بتاتے ہیں)۔ جیسا کہ روایت تھی، شہنشاہ کے کیمپ کو لوٹ لیا گیا۔ منرو کے لیے ایک اضافی بونس وہ 130 توپیں تھیں جو اس نے ہتھائی تھیں۔ جنگ کے بعد، میر قاسم مغرب کی طرف فرار ہو گئے، شجاع الدولہ نے کمپنی کی بالادستی کو تسلیم کر لیا، اور مغل شہنشاہ، جو کہ ہمیشہ سے ہی ہارنے والوں کی نہیں بلکہ جیتنے والوں کی حمایت کرنے کے خواہشمند تھے، کمپنی سرکار کے حلیف بن گئے۔

Robert Clive & Shah Alam
رابرٹ کلائیو اور شاہ عالم ثانی
Benjamin West (Public Domain)

عواقب و نتائج

فتح کے بعد، شاہ عالم ثانی نے 12 اگست 1765 کو معاہدہؑ الہ آباد پر دستخط کیے۔ شہنشاہ نے ایک مناسب مدت کے بعد کمپنی کو بنگال، بہار اور اڑیسہ کی علاقوں سے دیوان (محصول بر زمین) اکھٹا کرنے کا اختیار ابدی طور پر یہ ظاہر کرنے کے لیے سونپا کہ یہ اختیار تحفۃََ دیا گیا ہے اور یہ خیال باور کروانے کے لیے کہ ایسا بالکل نہ تھا کہ یہ شق بطور شکست خوردہ فریق ان پر جبری طور پر نافذ کی گئی ہے۔ یہ ایک بہت اہم پیشرفت تھی کیونکہ اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کمپنی کے پاس اب اپنے تاجروں، اڈوں، فوجوں اور بحری جہازوں کی توسیع اور حفاظت کے لیے وسیع وسائل موجود ہیں۔ شاہ عالم کی رعایت کے بدلے میں، کمپنی نے ضمانت لی کہ ریاست بنگال انہیں چھبیس لاکھ روپے سالانہ ہرجانہ ادا کرے گی۔ تاہم، الہ آباد کے معاہدے میں یہ بھی شرط رکھی گئی تھی کہ حال ہی میں ختم ہونے والی جنگ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے EIC کو 50 لاکھ روپے کی رقم ادا کی جائے۔ اب اپنے نئے کٹھ پتلی نواب (ناظم الدولہ) کے ذریعے سے بنگال پر مکمل اختیار حاصل کر لینے کے بعد، کمپنی نے بالآخر 1801 میں اودھ کی ریاست کو اس کے ساتھ ایک ذیلی اتحاد پر دستخط کرنے پر مجبور کیا۔ 1856 میں، کمپنی نے ریاست کا باضابطہ طور پر اپنے ساتھ الحاق کروا لیا۔ انیسویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر کی سب سے طاقتور اور مضبوط طاقت تھی لیکن اس کی وسیع سلطنت کی بنیادیں پلاسی اور سب سے بڑھ کر بکسر میں رکھی گئی تھیں۔

سوالات اور جوابات

جنگ بکسر میں کس فریق کو فتح نصیب ہوئی؟

1764 میں لڑی جانے والی جنگ بکسر ایسٹ انڈیا کمپنی اور مغل شہنشاہ، بنگال کے سابق نواب اور اودھ کے نواب کے سہ ریاستی اتحادی افواج کے درمیان لڑی گئی۔

جنگ بکسر کیوں لڑی گئی تھی؟

1764 میں لڑی جانے والی جنگ بکسرشمالی ہندوستان میں موجود بنگال کے امیر و کبیر علاقے پر قبضے کی خاطر لڑی گئی تھی

جنگ بکسر کی کیا اہمیت ہے؟

جنگ بکسر کی اہمیت یہ تھی کہ اس میں فتح کے حصول نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو بنگال پر مکمل کنٹرول اور ٹیکس جمع کرنے کا حق دے دیا، جو کہ ہندوستان میں مزید نوآبادیاتی توسیع کے لیے ضروری تھا۔

مترجم کے بارے میں

Zohaib Asif
جی میں زوہیب ہوں، زبان کا جادوگر اور ذہن کا مورخ۔ وقت کی چابی موڑنے والا، ماضی کے دریچوں میں جھانکنے والا الفاظ کا سنار۔ زبان اور تاریخ کے اس سفر پر میرا ساتھ ضرور دیجیے کیوں کہ اکھٹے ہم تاریخ کے سر بستہ رازوں سے پردہ ہٹائیں گے اور ساتھ ساتھ اٹھکیلیاں بھی کریں گے

مصنف کے بارے میں

Mark Cartwright
مارک اٹلی کا ایک تاریخ پر لکھنے والی لکھاری ہے۔ ان کی دلچسپی کا مرکز کوزہ گری، فن تعمیر، عالمی اساطیری روایات اور ایسے خیالات تلاش کرنا ہے جو کہ مخلتلف تہذیبوں میں ایک جیسے ہیں۔ ان کی سیاسی فلسفہ میں ماسٹر ڈگری ہے اور وہ گھروں کے عالمی دائرۃ المعارف میں طباعت کے ڈائریکٹر ہیں۔

اس کام کا حوالہ دیں

اے پی اے اسٹائل

Cartwright, M. (2022, November 28). جنگ بكسر [Battle of Buxar]. (Z. Asif, مترجم). World History Encyclopedia. سے حاصل ہوا https://www.worldhistory.org/trans/ur/2-2116/

شکاگو سٹائل

Cartwright, Mark. "جنگ بكسر." ترجمہ کردہ Zohaib Asif. World History Encyclopedia. آخری ترمیم November 28, 2022. https://www.worldhistory.org/trans/ur/2-2116/.

ایم ایل اے سٹائل

Cartwright, Mark. "جنگ بكسر." ترجمہ کردہ Zohaib Asif. World History Encyclopedia. World History Encyclopedia, 28 Nov 2022, https://www.worldhistory.org/article/2116/battle-of-buxar/. ویب. 18 Jul 2025.