بارہ نکاتی دستاویز

تعریف

Joshua J. Mark
کے ذریعہ، ترجمہ Samuel Inayat
11 February 2022 پر شائع ہوا 11 February 2022
دوسری زبانوں میں دستیاب: انگریزی, فرانسیسی
آرٹیکل پرنٹ کریں PDF
The Twelve Articles (by Unknown Author, Public Domain)
بارہ مضامین
Unknown Author (Public Domain)

بارہ نکاتی دستاویز ایک ایسی دستاویز ہے جو ۲۷ فروری اور ۱ مارچ ۱۵۲۵ کے درمیان ِ لِکھی جِسمیں مشرقی، وسطی اور شمالی یورپ سے تعلق رکھنے والے (Holy Roman Empire) گئی۔ کاشتکاروں کے اپنے مالکان یعنی لارڈز کے خلاف شکایات دُور کرنے کے بارے میں لِکھا گیا تھا۔ اِس دستاویزکے لِکھنے کا مقصد یہ تھا کہ جرمنی کے کاشتکاروں کیخلاف کی گئی جنگ 1524-1525 کا جواز پیش کیا جائے۔ تا ہم اِس جواز کو بُری طرح رد کر دیا گیا۔

دستاویزی نکات کو کھال (Fur) کا کاروبار کرنے والے شخص ( Sebastian Lotzer l. c. 1490 to c. 1525) نے (جو بعد میں بُغاوتی گروہوں میں سے ایک گروہ کا اعلؑ عہدہ دار (Secretary) بھی بنا)، اورایک اِصلاح شُدہ ماهر الہیات (l. 1472-1551 Christoph Schappeler) نے مِلکر لِکھا۔ ۔یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ Wendel Hipler d. 1526 (ایک باغی لیڈر) اور ایک اور باغی لیڈرماهر الہیات Thomas Müntzer l. c. 1489-1525 نے بھی اِس میں حِصہ ڈالا۔ اگر یہ سنجھا جائے کہ (Müntzer) بالواسطه طور پر (Christoph Schappeler) کے برابر حِصہ دار نہیں تھا تو ایسا نہیں ہے۔

کاشتکاروں کی جنگ اور بارہ نکاتی دستاویز اُس ظُلم کے جواب میں تھی جو اشرافیہ اور کیتھولک چرچ نے نِچلے طبقے پر اضافی ٹیکسوں اور اِختیارات سے محرومی کی شکل میں ڈھائے۔ جب یہ دستاویز اربابِ اِختیار کے سامنے (March 1525) میں پیش کی گئ تو اِسے رد کر دیا گیا۔ اِس دستاویز کو یورپ کے دورِ جدید کے اوائل سے اِنسانی حقوق سے مُتعلق پہلی دستاویز سمجھا جاتا ہے۔ علماء اِس بارہ نکاتی دستاویز کو آنے والے وقتوں کی اِنقلابی تحریروں کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ امریکہ کی (1776) کی آزادیِ اعلانِ جنگِ۔

پس منظر

رُومی سلطنت کے دورکی سماجی درجہ بندی کا جو نمونہ سولویں صدی میں تھا وہ (Middle ages) تک جاری رہا جِسکے مُطابق اشرافیہ کا درجہ پہلہ تھا دُوسرے درجہ کے لوگ وہ تھے جِن کے پاس تھٰوڑی زمیں تھی اور اُن کے پاس سیاسی اِختیارات بھی کم تھے۔ البتہ چرچ (Clergy) یعنی پادریوں کے طبقہ کے پاس اِن سے زیادہ اِختیارات تھے۔ تاجراور کِسان برادری تیسرے اور چوتھے درجہ پرتھے ۔ چاروں اُوپر کے طبقات آمدنی بڑھانے کی غرض سے نیچلے طبقہ کے لوگوں پرزیادہ سے زیادہ ٹیکس عائد کرتے تھے ۔ وقفہ وقفہ سے ٹیکس سے مُتعلق قانون بناتے اور اُنہیں اُنکی غلطیوں اور کوہتاہیوں کی شدید سزا دیتے تھے۔

اشرافیہ یا اربابِ اِ ختیار کی جانب سے لگائے گئے ٹیکس کے علاوہ چرچ کی طرف سے واجبی دہ یکی (Tyth) محت کش طبقہ کو پیسنے کے برابر تھا

کاشتکار کو اُنکی زمینوں پر مچھلی گیری یا شکار کی اِجازت نہیں تھی کیونکہ زمین کی ملکیت مالکان یعنی لارڈز کی ہوتی تھی اور وہ اُس زمیں میں سے اپنی انگیٹھی کیلئے جنگلوں میں سے لکڑی بھی نہیں لے سکتے تھے۔ رائج الوقت وراثتی ٹیکس کی وجہ سے وہ اپنے اوزار یا دیگر سامان اپنے بچوں کو نہیں دے سکتے تھے تاکہ لارڈ (Lords) اُن سے چھین نہ لیں۔ شادی کرنے پر محنت کش پر ٹیکس لگایا جاتا تھا اور اگر اُوپر کے درجہ سے تعلق رکھنے والے کی شادی ہوتی تھی تو بھی اُنھیں ٹیکس دینا پڑتا تھا۔ اِس کے علاوہ چرچ کی طرف سے دہ یکی بھی واجب تھی اوریہ دُوسرے ٹیکسوں کے علاوہ تھی ۔ محنت کش جو پہلے ہی غُربت کا شکار تھے یہ نظام اُنکی مزید پسپائی کا سبب بنا۔

(1524) کے آخرمیں موسم گرما کے گُزرنے کے بعد جنوبی جرمنی کے علاقے میں کاشتکاروں نے بُغاوت کردی۔ وجہ یہ تھی کہ کنی حُکم نامے جاری ہُوئے جِن کے تحت اُن پر یہ اعتراض کیا گیا کہ وہ کھیتوں میں دھاگے کیلئے سُنڈیوں کے خول اکٹھی کرنے کی غرض سے اپنے کام میں کوتاہی برتتے ہیں۔، بُغاوت سے دُوسوں کی بھی حوصلہ افزائی ہُوئی اور خِطے کا ایک بہت بڑا ھِصہ بُغاوت میں شامل ہو گیا۔ {(Swabian League (1488-1534)} ایک مِلٹری اور سیاسی اشرافیہ کا اِتحاد تھا۔ اِتحادی لیگ کی افواج اُس وقت بیرونی جنگوں میں مصروف تھیں اِس لئے بُغاوت نے مضبُوطی پکڑ لی کیونکہ مزاحمت کرنے والہ کوئی نہیں تھا۔ ِاِسکی وجہ سے کاشتکار اپنے مقصد میں پیش قدمی کر گئے۔

یہی سنجھا جاتا ہے کہ بارہ نکاتی دستاویز کا پہلا ڈرافٹ Lotzer) اور Schappeler Hipler نے ( February to early March, roughly 27 February to 1 March 1525) کے دوران تیار کیا۔ نظر ثانی کاشتکاروںکی اسمبلی میں ہُوئی تا کہ اِسکے بعد اِسے (Swabian League) کے نمائدوں کے سامنے رکھا جائے۔ بارہ نکات کے مُختصر مندرجہ ذیل اصول ہیں۔

  1. ہر طبقے کو یہ حق حاصِل ہے کہ وہ اپنا پادری خُود چُنے بجائے اِسکے کہ پادری مُقرر کیا جائے۔ نمائندہ پادری بائبل سے تبلیغ کرے نہ کہ چرچ (Church) کی ۔
  2. پادری کی تنخواہ جمع شُدہ دہ یکی میں سے دی جائے۔ اضافی رقم اور کِسی مقصد کی بجائے اُسی کلیسیا کے غریبوں کیلئے اِستعمال ہو۔
  3. ہر کاشتکار کو خُدا کی نظر میں با اِختیار سمجھا جائے ایسا کہ لارڈ (Lord) کے برابر ہے۔
  4. کاشتکاروں کو یہ اِختیار ہو گا کہ وہ اپنے کاشتکاری والی زمین مین شکار کر سکیں، مچھلی پکڑ سکیں اور اپنی مرضی سے اِستعمال کر سکیں۔
  5. کاشتکاروں کو یہ اِختیار ہو گا کہ اُنکی جنگلات تک رسائی ہو تا کہ وہ اپنی انگیٹھی، تجارت اور دیگر مقاصد کیلئے لکڑی اِستعمال کر سکیں ۔
  6. کاشتکاروں کی روزانہ کی اُجرت پہلے سے طے شُدہ طریقہ کے مُطابق ہو اور یہ اُس وقت تک جاری رہے جب تک نیا قانون رائج ہو نہیں جاتا۔
  7. جبری محنت مسیحی اصولوں کے منافی ہونے کی وجہ سے ختم کی جائے کیونکہ کاشتکار پہلے ہی جبری اُجرت کیلئے رضامند نہیں ہیں۔
  8. غیر مُنصفانہ لگان (Rent) ختم کر دیا جائے کیونکہ پہلے ہی بہت سے کاشتکار کام چھوڑ چُکے ہیں۔
  9. قوانین مُنصفانہ بُنادوں پر بنائے جائیں۔ ایک ہی جُرم کیلئے جو قانون ہو وہ نہ تو کِسی کے لئے سخت ہو اور نہ نرم بلکہ ہر ایک کیلئے یکساں ہو۔
  10. کھیت یا چراہگاہیں جو پہلے عوام کی تھیں اور لارڈز (Lords) نے لے لی تھیں، وہ سب واپس کی جائیں۔
  11. وراثتی قانون (Heriot Inheritance) ختّم کر دیا جائے کیونکہ یہ بیوہ اور یتیموں کو مزید پست حالی کی طرف لے جاتا ہے۔
  12. اِس دستاویز کی کوئی بھی شِک اگر بائیل کے منافی پائی جائےتو باہمی وضاحت کے بعد اُسے ہٹا دیا جائے۔

کیونکہ دستاویز کے تمام نُکات کاشتکاروں کے حق میں تھے (Swabian League) کے نمائندوں نے اِسے رد کر دیا۔ اِس دستاویز کے مُسترد کئے جانے کی مارٹن لُو تھر (Martin Luther (l. 1483-1546)) نے بھی حمایت کی جِسنے جرمنی کے کاشتکاروں کی جنگ (German Peasants' War ) کی مذمت کی اور اشرافیہ کی طرفداری کی جِنمیں سے بہتوں نے اُسکو تحفظ بھی فراهم کیا جب مُقدس رومن سلطنت کے شہنشاہ چارلس (1521) نے مارٹن لُوتھر کو پھانسی دینے کا فیصلہ سُنایا۔

German Peasant's War
جرمن کسان کی جنگ
CrazyD (CC BY-SA)

(Thomas Müntzer) جو شروع کا مارٹن لُوتھر کا حمایتی تھا، اُسنے بھی اسکی مُخالفت کی کیونکہ مارٹن لُوتھرنے کاشتکاروں کی حمایت نہ کی۔ اِس کے برعکس اُسنے اشرافیہ کی حمایت کی۔ ((Thomas Müntzer) نے ایک مُذ ہمتی خط (Müntzer's Vindication and Refutation 1524) ممارٹن لُو تھر آور مسیحی برادری کے نام لِکھا کیونکہ اُسنے شہزادوں کی حمایت حاصل کی جبکہ کاشتکاروں کا قانونی اِستحصال تھا۔۔ ہو سکتا ہے کہ (Thomas Müntzer) بارہ نکاتی دستاویز میں حِصہ ڈالتا مگر یہ اُسکے لئے جُزوی طور پر حوصلہ افزا تھا۔ ۔اُسکی سوچ بہت اور لوگوں کی بھی آواز بنی۔

دستاویزی نکات کی تفصیل

اِس دستاویز کوایک کِتاب سے لیا گیا ہے جِسکا ذِکر مُختصر ہے۔ (A Reformation Reader: Primary Texts with Introductions edited b Denis R. Janz, pp. 168-170.)

متن کا آغاز اِس دُعا کے ساتھ کہ خُدا کا اِطمینان اور فضل مسیحی پڑھنے والے کیلئے ہو۔ کاشتکاروں کے اِکٹھ میں بہت سے مُخالفِ مسیح ہیں جو انجیل پر کیچڑ اُچھالتے ہیں یہ کہتے ہُوئے، "کیا یہ نئی تعلیم کا ثمر ہے کہ کوئی بھی نہیں مانتا بلکہ سب ہر جگہ بُغاوت کیلئے اکِٹھے ہُوئے ہیں تا کہ اِصلاح کریں۔ بیشک یہ اِصلاح نہیں ہے۔ وہ اِکٹھے ہُوئے ہین کہ دُنیاوی اور رُوحانی حُکام کی تعلیم کو بےسُود کریں۔ "مندرجہ ذیل نُکات ان بے دین اور توہین آمیز غلطی کرنے والوں کا جواب دیں گے۔ وہ خدا کے کلام سے ملامت کو دور کریں گے اور دوسرے یہ کہ تمام کسانوں کی نافرمانی یا حتیٰ کہ بغاوت کا مسیحی عذر پیش کریں گے۔لہذا، مسیحی قارئین، مندرجہ ذیل نُکات کو احتیاط سے پڑھیں، اور پھر فیصلہ کریں.

پہلا اصول ہماری یہ قرارداد ہے اور مرضی بھی کہ مُستقبل میں ہمیں اِختیار حاصل ہو (یہ ہماری عاجزانہ درخواست بھی ہے) کہ برادری اپنے پادری کا اِنتخاب خود کرے اور اگر وہ اپنے فرائض صہیح طور پر ادا نہ کرے تو اِس صُورت میں برادری اُسکو اُسکے عہدہ سے ہٹا بھی سکے۔ اِنتخاب شُدہ پادری سادہ انداز میں خالصاؐ انجیلی تعلیم دے نہ کہ اُسمیں اپنا ذاتی خیال یا نظریہ پیش کرے یا سیاسی رنگ دے۔ کیونکہ مسلسل تعلیم اور سچا ایمان ہمیں خُدا میں آگے بڑھنے میں مدد دے گا اور ہم ایمان میں پُختہ ہوں گے۔ کیونکہ اگر اُس کا فضل ہمارے اندر نہیں ہے تو ہم ہمیشہ جِسمانی خواہشات میں رہیں گے جِن سے ہمیں کُچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ کلام پاک واضح طور پر سکھاتا ہے کہ صرف سچے ایمان کے ذریعے ہی ہم خدا کے پاس آ سکتے ہیں۔

دُوسرا اصول چونکہ دہ یکی کا حُکم جو پُرانے عہد نامہ میں قائم ہُوا اور نئے عہد نامہ میں یہ پُورا ہوتا ہے، ہم اِنصاف سے اناج کی شکل میں دینے کیلئے تیار ہیں۔ بحر حال اِسے صیح طور پر ہونا چاہیے۔ خُدا کا کلام صاف طور سے یہ کہتا ہے کہ اِسے خُدا کو دینا چاہیے۔ اگر یہ پادری کو دیا جاتا ہے، تو اِس صُورت میں اِسے اپنے کلیسیا کی جانب سے مُنتخب شُدہ چرچ ایلڈرز کے ذریعے اِکٹھا کریں گے ۔ حالات کیمُطابق کُچھ حِصہ غریبوں میں تقسیم کر دیا جائے۔

تیسرا اصول رواج کیمُطابق لارڈز ہمیں اپنی ملکیت سمجھتے ہیں، جو کہ قابلِ رحم ہے کیونکہ مسیح نے ہمیں بغیر کسی استثناء ہر بڑے اور چھوٹے کو اپنے قیمتی خون سے چھُڑایا ہے۔ چُناچہ ہمیں آزاد ہونا چاہیے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم بالکل آزاد اور کسی اختیار کے تحت نہیں رہنا چاہتے۔ خدا ہمیں یہ نہیں سکھاتا ہے کہ ہمیں جسمانی خواہشات کے مطابق بے ترتیب زندگی گزارنی چاہئے، بلکہ یہ کہ ہمیں حکموں کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے، خداوند اپنے خدا اور اپنے پڑوسی سے اپنی ماند محبت کرنی چاہئے۔

چوتھا اصول یہ رواج رہا ہے کہ کسی غریب کو ہرن کا گوشت یا جنگلی پرندہ یا بہتے ہوئے پانی میں مچھلی پکڑنے کی اجازت نہیں تھی، جو ہمارے نزدیک اِنتہائی ناگوار اور برادرانہ اصولوں کے خِلاف، خود غرض اور خدا کے کلام کے مطابق نہیں۔ کوئی شکص بھی اگر قانونی طور پر پانیوں پر مالکانه حقوق رکھتا ہو تو وہ اِس بارے اپنی خرید کے دستاویزات دِکھائے۔ ہم زبردستی اُس سے لینا نہیں چاہتے ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اُسکے حقوق کی پاسداری مسیحی اور بھائی چارہ کی بُنیاد پر ہو۔

پانچواں اصول ہم لکڑی کاٹنے کے معاملے میں پریشان ہیں، کیونکہ ہمارے معزز لوگوں نے تمام لکڑیاں اپنے لیے مختص کر رکھی ہیں… معاشرے کے ہر فرد کے لیے آزادی ہونا چاہیے کہ وہ اپنے گھر میں لکڑی کی ضرورت کے مطابق اپنی مدد کرے۔ اس کے علاوہ، اگر کسی آدمی کو بڑھئی کے کام کے لیے لکڑی کی ضرورت ہو تو اسے مفت ملنی چاہیے، لیکن کمیونٹی کے مقرر کردہ شخص کی منظوری سے۔

چھٹا اصول شکایت یہ ہے کہ ہم سے اضافی خِدمات لی جا رہی ہیں جو روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ ہم درخواست کرتے ہیں کہ اس معاملے کو اچھی طرح سے دیکھا جائے، تاکہ ہم اس طرح مظلوم نہ رہیں، اور یہ کہ ہم پر کچھ احسان کیا جائے، کیونکہ ہمارے آباؤ اجداد نے صرف خدا کے کلام کے مطابق خدمت کی۔

ساتواں اصول ہم اس کے بعد اپنے آپ کو اپنے آقاوں کے ہاتھوں مزید مظلوم نہیں ہونے دیں گے۔ جو کچھ آقاوں کے پاس ہے وہ مالک اور کسان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق ہونا چاہیے۔

آٹھواں اصول زمین کی ہولڈ نگ (زیرِ کاشت رقبہ) کا طریقہ اُس لگان (Rent) سے مُطابقت نہیں رکھتا جو ہم سے وصول کیا جاتا ہے اور یہ ہم پر بہت بڑا باجھ ہے۔کاشتکار اس طرح نقصان اٹھاتے ہیں اور برباد ہو جاتے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ آقا ان ہولڈنگز(Holdings) یعنی زیرِ کاشت زمینی ٹُکڑوں کا معائنہ کرنے کے لیے معزز افراد کو مقرر کریں اور انصاف کے مطابق کرایہ مقرر کریں، تاکہ کاشتکار کی محنت بیکار نہ ہو کیونکہ مزدور کو اُسکی مزدوری کا حق ملنا چاہیے۔

نواں اصول جُرم کے مُطابق ہمارا اِنصاف نہیں کیا جاتا۔ کبھی تو بوجہ بدنیتی سختی نظر آتی ہے اور کبھی نرمی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا انصاف پہلے والے بنائے گئے قوانین کے مُطابق ہو تا کہ مُقدمات کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے مُطابق یعنی میرٹ پر ہو۔ ہم پر احسان نہ کیا جائے۔

دسواں اصول ہم اس بات سے پرعشان ہیں کہ کُچھ حضرات نے اُن کھیتوں اور چراہگاہوں کو جو پہلے کمیونیٹی کیلئے مختص تھیں، ااپنے مخصوص مقاصد کیلئے مُختص کر دیا ہے۔ہم اِنہیں واپس لیں گے جب تک نئے خریدار کے ہاتھوں خریدا نہ جائے۔۔

گیارواں اصول ہم "ہیریٹ" کہلانے والے رواج کو مکمل طور پر ختم کر دیں گے اور اسے مزید برداشت نہیں کریں گے، اور نہ ہی بیواؤں اور یتیموں کو اس طرح شرمناک طریقے سے خدا کی مرضی کے خلاف لوٹنے کی اجازت دیں گے۔

بارواں اصول ہماری قرار داد ہے کہ اگر اِس دستاویز میں سے کوئی بھی نُکتہ یا اصول خدا کے کلام کے موافق نہ ہو، جس کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے، تو ہم اپنی مرضی سے ایسے نُکتہ سے باہمی کلام کی رُو سے وضاحت کے بعد دستبردار ہو جائیں گے ۔ اس کے لیے ہم خُدا سے دعا کریں، کیونکہ وہ جو واحد ہے یہ سب کچھ دے سکتا ہے ۔ مسیح یسوع کی سلامتی ہم سب کے ساتھ رہے گی۔

نتیجہ

بارہ نُکات اس وقت پیش کیے گئے جب 1525 کے اوائل میں سوابیان لیگ (Swabian League) کی افواج کاشتکاروں کواپنی مصروفیات کے باوجود شکست دے چکی تھیں تاکہ اُنکی کامیابی بعد میں لڑی جانے والی ہر جنگ کا نمونہ ہو۔ ۔کاشتکاروں کے پاس کوئی مضبوط قیادت نہیں تھی، اتحاد کا فقدان تھا، اور وہ پیشہ ورانہ فوجوں اور ان کے اعلیٰ ہتھیاروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ اپریل 1525 میں، Leipheim کی لڑائی میں 3,000 سے زیادہ کاشتکار اور 12 مئی کو Boblingen کی لڑائی میں 3,000 یا اس سے زیادہ کاشتکار مارے گئے۔فیصلہ کن 15 مئی 1525 کو فرینکن ہاؤسن (Frankenhausen) کی لڑائی تھی جب کاشتکاروں کی فوج کی شکست کے بعد سامراجی فوجیوں کے ذریعہ فرینکن ہاؤسن کے پورے گاؤں کا قتل عام کیا گیا۔ منٹزر(Müntzer) جو فوج کی قیادت کر رہا تھا، اُسے گرفتار کر لیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھانسی دے دی گئی۔

Episode from the German Peasants' War
جرمن کسانوں کی جنگ کا قسط
Belvedere, Wien (CC BY-SA)

جنگ جو1525 کے پورے موسم گرما میں جاری رہی، ستمبر میں اشرافیہ کی مکمل فتح کے ساتھ ختم ہوئی، جس میں 100,000 سے زیادہ کاشتکار ہلاک اور ان کے بہت سے کھیت اور گاؤں تباہ ہو گئے۔ بارہ نُکاتی دستاویز کو کاشتکاروں کے وفد نے پھر کبھی نہیں اُٹھایا اور شاہد اشرافیہ بھی اِسکو بھول گئے اور اگر کِسی نے اِسکے بارے میں سوچا بھی تو اِسے کِسانوں کی ناکام بغاوت کا صرف ایک حِصہ سمجھا۔ مئی 1525 میں،مارٹن لوتھر نے کسانوں کے لوٹنے اور قتل کرنے والے گروہوں کے خلاف بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے اپنا پرچہ شائع کیا، جو بارہ نکاتی دستاویز سے بھی زیادہ توجہ کا مرکز بنا۔ اِس نے باغیوں کو "پاگل کتے" اور "شیطان" کے طور پر تھوک کے طور پرذبح کرنے کے برابر سنجھا اور اِسکی وکالت کی۔ کُچح دیر کے بعد یہ دستاویز سب کی یاداشت سے اوجھل ہو گئی۔

بارہ نکاتی دستاویز مکمل طور پر معقول تھی، کیونکہ کسان صرف بنیادی انسانی حقوق اور ذاتی وقار کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اگرچہ اس دستاویز کو اپنے وقت میں تو مُسترد کر دیا گیا لیکن مُسلسل اہمیت دینے سے یہ دستاویز اٹھارویں صدی میں مُساوات پسندانہ سوچ رکھنے والے لوگوں کی شخصی آزادی اور حقوق کی ترقی کیلئے ایک مضبوط حوالہ بن گئی جیسے برطانوی کالونیاں یعنی مُتحدہ امریکہ اور فرانس وجود میں آئے۔

اس دستاویز کا ذِکر پہلے تو لیک جرمن فلاسفر فریڈ رک اینگلز (Friedrich Engels) نے اپنی کِتاب جرمنی میں کِسانوں کی جنگ (The Peasant War in Germany (1850) اور بعد میں کارل مارکس نے کمونسٹ منشورمیں اعلانِ کمونسٹ کے طور پر کیا۔ اس کے بعد سے بارہ نُکاتی دستاویز پروٹسٹنٹ فرقہ کے اِبتدائی اصلاحاتی دور میں اہم ترین دستاویز کے طور پرکِسانوں کی زندگی اور امید کی عکاسی کرنے والی دستاویز سمجھی گئی اور توجہ کا مرکز بھی بنی ، جو بعد میں اپنی اہمیت نئی قرون وسطی دور (Medieval age) کی کلیسیائی آور غیر مذهبی بندشوں سے آزاد تعلیم کی روشنی میں کھو گئی۔

مترجم کے بارے میں

Samuel Inayat
I began my professional career in July 1975 by joining a government service in scale 10 and continued till I retired in June 2013 in scale 17 after rendering 40 years unblemished service. Most of my service was as a Civil Servant.

مصنف کے بارے میں

Joshua J. Mark
ایک فری لانس لکھاری اورمارست کالج، نیو یارک کے سابقہ جزوقتی فلسفہ کے پروفیسر، جوشیا ج۔ مارک یونان اور جرمنی میں رہ چکے ہیں اور مصر کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے کالج کی سطح پر تاریخ، ادب، تصنیف و تالیف اور فلسفی کی تعلیم دی ہے۔

اس کام کا حوالہ دیں

اے پی اے اسٹائل

Mark, J. J. (2022, February 11). بارہ نکاتی دستاویز [Twelve Articles]. (S. Inayat, مترجم). World History Encyclopedia. سے حاصل ہوا https://www.worldhistory.org/trans/ur/1-20526/

شکاگو سٹائل

Mark, Joshua J.. "بارہ نکاتی دستاویز." ترجمہ کردہ Samuel Inayat. World History Encyclopedia. آخری ترمیم February 11, 2022. https://www.worldhistory.org/trans/ur/1-20526/.

ایم ایل اے سٹائل

Mark, Joshua J.. "بارہ نکاتی دستاویز." ترجمہ کردہ Samuel Inayat. World History Encyclopedia. World History Encyclopedia, 11 Feb 2022, https://www.worldhistory.org/Twelve_Articles/. ویب. 29 Apr 2025.