
بوئنگ B-29 ایک قلعہ بند (Superfortress) ریاستہائے متحدہ کی فضائیہ کا چار انجن والا طویل فاصلے تک بمباری کرنے والا جہاز تھا جو دُوسری جنگِ عظیم (1939-45) میں اِستعمال ہونے والے جہازوں میں سب سے بڑا تھا۔اِسی قِسم کے جہازوں کو 1944 کے موسم گرما میں جاپانی اہداف پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اگست 1945 میں "انولا گے اور باکسکار" ( Enola Gay اور Bockscar) نام کے جہازوں کے ذریعے بالترتیب ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا اور اس طرح جنگ کا خاتمہ ہوا۔
ترقیاتی تفصیل
1930 کی دہائی میں، ریاستہائے متحدہ کی فوج کا ہوائی یونٹ (یو ایس اے اے سی) کوحِکمتِ عملی کے تحت (اstrategic) بمبارطیارے بنائے گئے طویل فاصلے تک مار کرنے والے جہاز کی ضرورت تھی جو ہوم بیس (Homebase) سے ہزاروں میل دور دشمن کے اہداف پر حملہ کر سکے۔اس خیال کو حقیقت میں بدلنے کیلئے مسائل میں سے ایک مسلہ یہ تھا کہ جہاز انجنوں کے اعتبار سے اِتنا طاقتور ہو جو اپنا ہدف حاصل کر سکے۔نازی جرمنی کے (1939) میں پولینڈ پر حملہ کرنے کے بعد ایک دُور مار (Very long rangeVLR ) ہوائی جہاز جو اُنچائی سے اپنے ہدف پر بمباری کر سکے، بنانے کے بارے میں ایک پرروجیکٹ کی بابت پتا چلا اور اِس پر تیزی سے کام بھی کیا گیا۔ جنوری 1940 میں، پانچ طیارہ ساز کمپنیوں کو VLR قِسم کے بمبار طیاروں کو بنانے کی تجویز پر کام کرنے کیلئے پُوچھا گیا۔تجویز کردہ ڈیزائن کیمُطابق طیاروں کو بنانے کیلئے چارکمپنیوں نے حِصہ لیا۔ دو کمپنیوں کے دستبردار ہونے کے بعد، صرف کنسولیڈیٹڈ اور بوئنگ (Consolidated and Boeing) نے ستمبر 1940 میں تعمیراتی ٹھیکے حاصل کیے۔بالآخر، ہر کمپنی نے تین پروٹو ٹائپ (Protoype) نمونے بنائے ۔بوئنگ کمپنی کے تعمیراتی پلانٹس زیادہ ترقی یافتہ تھے کیونکہ یہ پہلے سے ہی اپنے موجودہ بوئنگ B-17 فلائنگ فورٹریس ڈیزائن میں ترمیم پر کام کر رہے تھے۔ بوئنگ کو 1500 VLR کا ٹھیکہ ملا اور کمپنی نے وعدہ کیا کہ یہ طیارے تین سال کے اندر تیار ہو جائیں گے۔
7 دسمبر 1941 کو بحر الکاہل میں پرل ہاربر، ہوائی (Hawaii),، پر جو امریکی بحری بیڑے کا گھر تھا، جاپانی حملے کے بعد، بحرالکاہل کے وسیع میدانِ جنگ میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے طیاروں (VLRs) کی اشد ضرورت پڑی۔ سمندر ایک ضرورت بن گیا۔ پہلا بوئنگ VLR پروٹو ٹائپ، XB-29 کے نام سے کہلایا جانے والا پہلی دفعہ ٹرائی سائیکل لینڈنگ سِسٹم کے ساتھ 21 ستمبر 1942 کو اڑا۔ طیارے کے بہت بڑے پروں کو اس لیے ڈیزائن کیا گیا تھا کہ اسے کم رفتار پر اترنے میں مدد ملے۔ ٹرائی سائیکل لینڈنگ گیئرز نے زیادہ وزن برداشت کرنے میں مدد دی۔ 14 آزمائشی طیارے جون 1943 سے اڑنا شروع ہوئے۔ یہ طیارے چار بُنیادی پلانٹس: رینٹن، وچیٹا، ماریٹا اور اوماہا (Renton, Wichita, Marietta, and Omaha) پر بنائے گئے تھے۔ بوئنگ، بیل اور مارٹن (Boeing, Bell, and Martin) تین اہم کمپنیاں تھیں، لیکن ہزاروں دیگر چھوٹی کمپنیاں اجزاء اور جزوی اسمبلی فراہم کرتی تھیں۔ B-29 منصوبہ "دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ میں شروع کیا گیا ہوائی جہاز بنانے کا سب سے بڑا منصوبہ تھا"۔ (Mondey, 29)۔ یہ سب سے مہنگا بھی تھا۔ 1943 کے موسم خزاں سے پہلے B-29 بمباروں کو امریکی فضائی اڈوں پر پہنچایا گیا۔
ڈیزائن اور وضاحتیں
B-29 اِنتہائی قلعہ بند (Superfortress) دُوسری جنگِ عظیم کے دوران بنایا جانے والا سب سے بڑا طیارہ تھا اور اس میں عملے کی تعداد 11 تک تھی، لیکن یہ تعداد مخصوص مشن کو مدِ نظر رکھتے ہُوئے کم بھی ہو سکتی تھی کیونکہ بندوق چلانے والوں کی موجودگی لازمی نہیں تھی۔ہوائی جہاز میں چار رائٹ سائکلون ریڈیل انجن (Wright Cyclone radial engines) تھے، جن میں سے ہر ایک میں جڑواں جنرل الیکٹرک ٹربو چارجرز (twin General Electric turbochargers) تھے اور یہ مِل کر 23,200 ایچ پی (Horse power) دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔بڑے انجنوں نے ہوائی جہاز کو اس وقت کے کسی بھی دوسرے طیارے سے زیادہ طاقت دی۔ اتنی ہی طاقت کی ضرورت تھی کیونکہ مکمل طور پر لدے ایسے طیارے کا وزن تقریباً 60 ٹن تھا۔ ایک طیارے کے پروں کا پھیلاؤ 141 فٹ (43 میٹر) اور لمبائی 99 فٹ (30.18 میٹر) تھی۔ اِس دیو ہیکل طیارے کے پروپیلر(propellers) کی پیمائش 16 فٹ 7 انچ (5.05 میٹر) تھی۔
خصوصیت میں عملے کے لیے مکمل دباؤ والے کمپارٹمنٹس (compartments) کے ساتھ یہ پہلا ہوائی جہاز تھا جِسمیں پائلٹ کا کیبن، آرام کرنے کیلئے یونٹ، درمیان میں کرال سرنگ (crawl tunnel) تک رسائی اور بندوق کا عقبی برج شامل تھے۔ ایک اور نئی خصوصیت یہ کہ بندوقوں کے لیے مرکزی کنٹرول سسٹم تھا۔ آرام دہ نشستیں، ریسٹ بنکس (rest bunks)، اور یہاں تک کہ ایک گیلی (Kitchen area) بھی تھی۔ لمبی پروازوں کے پیشِ نظر عملے کیلئے خُورد و نوش کیلئے جگہ کا بندوبست بھی تھا (Sitting area)۔
اِس جہاز کو خاص طور پر دُوسری جنگِ عظیم کے وقت بحرالکاہل میں اِستعمال کرنے کے لیے بنایا گیا تھا جہاں تنازعاتی ہدف والے علاقے لمبے فاصلوں پر تھے۔ریاستہائے متحدہ کی فضائیہ کے نیشنل میوزیم کے مطابق ہوائی جہاز بم کے بوجھ کے علاوہ جِسکا کا وزن 20000 پاؤنڈ یا 9,072 کِلو گرام ہو،357 میل یا 574 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار برقراررکھتے ہُوئے 33,000 فٹ یا 10,058 میٹر سے زیادہ کی بلندی پر پرواز کرسکتا تھا۔ بم کا وزن 2,000 پاؤنڈ یا 907 کِلو گرام کی صُورت میں جہاز کی رینج 5,000 میل یا 8,046 کلومیٹر تک تھی جو بُلندی پر پرواز کیوجہ سے موافق یا ناموافق ہواؤں سے بھی بہت زیادہ متاثر ہو سکتی تھی۔
اِن جہازوں میں دفاعی ہتھیاروں کی ایک زبردست صف تھی۔اُوپر اور نیچے والے حصے میں دو دو مشین گنوں کیلئے ٹنلز (Tunnels) تھیں۔ جو 0.50-انچ (12.7-mm) سائز کی بندوقوں کیلئے تھیں ( کچھ جہازوں میں آگے اُوپر والی ٹنل میں چار بندوقیں ہوتی تھیں)۔ دو اُوپر والی ٹنلز میں بندوقوں کو دیکھنے کے لیے ہر ایک کے پیچھے چھلنی نُما کھڑکی لگی تھی۔ جہاز کے پِچھلے حِصے میں 0.50 انچ کی جڑواں مشین گنوں کو چلانے کیلئے بندوبست تھا۔ بعض اوقات 20 ملی میٹر توپ بھی ہوتی تھی اور ہر ایک میں 1000 راوؐنڈز (Rounds) نِکلنے کی گُنجائش تھی۔ خصوصی B-29A ماڈل میں چار مشین گنوں کے ساتھ نوز گن (Nose gun) ٹنل بھی ہوتی تھی۔ ریموٹ کنٹرول مشین گنوں کو عملے کا ایک رکن، فائر گن کنٹرولر چلا سکتا تھا، جو ایک اٹھی ہوئی کرسی پر بیٹھتا تھا جسے 'حجام کی کُرسی کا نام دیا گیا تھا۔
ااُڑان کے عملے میں سے کُچھ نے پائلٹ کی سائیڈ کھڑکیوں کے بالکل پیچھے رنگا رنگ پینٹِنگ کر کے ایک طرح سے جہاز میں اپنایت پیدہ کی۔ سب سے زیادہ مشہور لڑکیوں یا فلم کے نام تھے جن کو تصویر کی طرح لٹکایا گیا تھا۔ مثال میں 'Supine Sue' ، 'Horezontal Dream'، 'Dauntless Dotty'، 'Battlin Betty III'، اور ('Over Exposed' فِلم کا نام) شامل تھے۔
آپریشنز
پہلے اپریشن کیلئے ان طیاروں کو نئی تشکیل شدہ 20ویں فضائیہ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ اپریل 1944 میں ان طیاروں کو بحرالکاہل کے جنگی علاقے میں بھیجا گیا تھا، خاص طور پر چین میں قائم کردہ اڈے جہاں سے یہ بمبار جاپان کے علاقوں پر حملہ کر سکتے تھے۔ ایسے بڑے ہوائی جہازوں کے لیے اہم طویل ہوائی اڈے بنانے کے لیے چینی مزدوروں کو بھرتی کیا گیا تھا۔ آخرکار چین کے شیچوان (Szechwan) صوبے کے چینگٹو (Chengtu)علاقے میں چار رن وے بنائے گئے تھے۔ سامان بھارت سے لانا پڑتا تھا، جس کا مطلب بلند ہمالیہ کو عبور کرنا تھا۔ 1944 کے موسم گرما کے دوران، چین سے آپریٹ ہونے والے اِن طیاروں نے کیوشو کے یاواٹا (Yawata on Kyushu) میں امپیریل آئرن اینڈ اسٹیل ورکس جیسے اہداف پر بمباری کی (Imperial Iron and Steel Works at Yawata on Kyushu)۔ تاہم، ہندوستان سے رسد و فراہمی میں دشواریوں اور بڑے فاصلے کا مطلب یہ تھا کہ ان چھاپوں نے جاپانی جنگی مشین کو سنجیدگی سے کمزور کرنے کا اپنا حتمی مقصد حاصل نہیں کیا، جیسا کہ یہاں آکسفورڈ کمپینئن برائے دوسری جنگ عظیم (The Oxford Companion to World War II) میں وضاحت کی گئی ہے:
چین سے کئے گئے چھاپے کُچھ خاص فائدہ مند ثابت نہ ہُوے۔1944 اور 1945 کے اوائل میں چین سے آنے والے تقریباً 50 B29 حملوں میں سے صرف 9 نے جاپان کو نشانہ بنایا۔ دیگر یعنی مانچوکو، کوریا، چین، فارموسا اور جنوب مشرقی ایشیا Manchukuo, Korea, China), Formosa, and South East Asia) میں اہداف پر بہت کم تزویراتی (Strategic) نقصان پہنچایا۔ بمباری کرنے والے عملے کے لیے تو قیمتی تجربہ فراہم ہُوا لیکن ان کی لاگت اور کوشش کا شاید ہی کوئی جواز ہو۔(840)
جس چیز کی ضرورت تھی وہ جاپان کے قریب کے اڈے تھے۔جیسے بحرالکاہل جنگ ریاستہائے متحدہ کے حق میں آگے بڑھی، موذوں جگہ پر واقع کُچھ جزیرے مِلےجو فضائی اڈوں کے طور پر اِستعمال ہونے لگے۔ماریاناس گروپ میں سائپان، ٹینین اور گوام Saipan, Tinian) Guam) جیسے جزیرے شامل تھے۔اِنہی جزائر نے اگست 1944 میں امریکی افواج کے قبضے کے بعد B-29 سکواڈرن کی میزبانی کی۔سائپان (Saipan) جاپان کا قریب ترین جزیرہ تھا جو ٹوکیو سے تقریباً 1,200 میل (1,930 کلومیٹر) کے فاصلے پر واقع تھا اور یہی پہلے B-29 کیلئے اسٹریٹجک بمباری کیلئے اہم امریکی بیس بنا۔ ماریاناس میں کاروائی 24 نومبر 1944 کو ہوئی جب 80 سپر فورٹریس جہازوں نے ٹوکیو میں ایک ہوائی جہاز کی فیکٹری پر بمباری کی۔
اِن طیاروں کو اِبتدائی طور پر اونچائی سے درُست ہدف کو نشانہ بنانے کیلئے بنایا گیا تھا لیکن زیادہ تر یہ طیارے فروری 1945 سے جاپانی شہروں پر کم اونچائی سے ٹنوں آگ لگانے والے بم گرانے کے لیے تعینات کئے گئے تھے۔ جیٹ اسٹریم سے تیز ہواؤں کی وجہ سے اونچائی سے بمباری مشکل ثابت ہوئی اور اہداف کو نشانہ بنانے کے لئے بمباروں کو دن کی روشنی کی ضرورت تھی، جس سے طیاروں کو جاپانی لڑاکا حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمنی پر اتحادیوں کی بمباری کے دوران اگست 1943 میں ہیمبرگ کے خلاف آپریشن گومورہ جیسے جرمن شہروں پر آگ لگانے والی بمباری کے اثرات کو دیکھتے ہوئے، امریکی فضائیہ نے جاپان پر بھی یہی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا۔ جاپانی شہروں میں لکڑی کا فن تعمیرعام تھا لہازہ آتشی بمباری نے تباہی مچا دی ۔ یہ بمباری رات کے وقت 6,000 فٹ (1,830 میٹر) نسبتاً کم اونچائی سے کی گئی تھی، نیپلم سے بھرے (napalm-filled) آتش گیر آلات جب اکثر گرائے جاتے ہیں تو وہ پھٹتے ہی آگ پھیلا دیتے ہیں۔ کم اونچائی کا مطلب یہ تھا کہ یہ طیارے زیادہ بموں کا بوجھ اُٹھا سکیں، جِسے بڑھایا گیا جب یہ فیصلہ کیا گیا کہ بندوق چلانے والا عملہ تعینات نہ ہو۔
9 مارچ 1945 کی رات ٹوکیو پر ایک بڑا حملہ کیا گیا۔ 334 بمبار طیارے گوام، سائپان اور ٹینیان سے روانہ ہُوئے اور اُنہوں نے جاپان کے دارالحکومت میں 10 لاکھ سے زیادہ مکانات کو تباہ کر دیا۔ اس حملے کے نتیجے میں آگ کے طوفان میں 87,000 سے زیادہ لوگ مارے گئے، اور تقریباً 41,000 زخمی ہوئے (نیلینڈز Neillands 378)۔ دوسرے شہروں میں بھی اندھا دھند آگ لگانے والے بم دھماکوں سے ایسا ہی ہُوا جن میں ناگویا، کوبی، کاواساکی، اوساکا اور یوکوہاما (Nagoya, Kobe, Kawasaki, Osaka, and Yokohama) شامل ہیں۔ان شہروں کو اکثر ایک ہی حملے میں 500 B-29 طیاروں نے نشانہ بنایا۔ جاپان کے 60 چھوٹے شہروں پر بھی بمباری کی گئی، اِن طیاروں نے مُختلف نوعیت کی ٹھیک نشانے پر بمباری کی، جس کا مقصد صنعتی یا فوجی اہداف کو آگ لگانے والی بمباری سے نشانہ بنانا تھا،
مجموعی طور پر، دُوسری جنگِ عظیم کے دوران، اِن طیاروں نے "جاپانی اہداف پر تقریباً 160,000 ٹن بم گرائے" (Mondey, 32)۔ امریکی بمباری کے حملوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کم از کم 800,000 تھی (جس میں 300,000 اموات شامل ہیں) اور 8.5 ملین افراد بے گھر ہوئے۔ پھر بھی،جاپانی حکومت اس امید پر لڑتی رہی کہ دشمن کو اتنا زیادہ جانی نقصان پہنچایا جائے جسکے لیے امریکی حملہ ناگزیر بھی لگتا تھا کہ ہتھیار ڈالے بھی جائیں تو زیادہ بہتر شرائط پر بات چیت کی جا سکے۔
شہروں پر بمباری کے علاوہ اِن طیاروں کا دیگر کام بحری اور بری دونوں جگہوں پر بمباری کرنا تھا جیسے April 1945 میں اوکینو ہاوا (Okinawa) پر کی تھی۔ بحرالکاہل کے مزید جزیروں {مثال کے طور پر Iwo Jima (مارچ 1945)} کو فتح کرنے کے بعد پھر طویل فاصلے تک مار کرنے والے لڑاکا طیارے (Mustangs P-51) اب بھاری بمبار طیاروں سے آپریشن کر سکتے تھے تا کہ نُقصان 5% سے بھی کم ہو جو قابلِ قبول بھی تھا۔ جنگ کے دوران، اِن طیاروں کو نہ صرف ریاستہائے متحدہ کی فضائیہ بلکہ برطانیہ کی رائل ایئر فورس اور رائل آسٹریلین ایئر فورس نے بھی آپریٹ کیا۔ ان تمام طیاروں میں سے، دو بمبار خاص طور پر وہ تھے جِنہوں نے ایک نئے اور تباہ کن ہتھیار کو لے جانا تھا اور مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے پر مشہور ہونا تھا اورپھِر دُوسری جنگِ عظیم کو ختم کرنا تھا جِس کے لِئے دوسری تمام مُہم جوہیاں ناکام رہی تھیں۔
ایٹم بم
مئی 1945 میں نازی جرمنی کے ہتھیار ڈالنے کے بعد اتحادیوں نے یورپ میں فتح حاصل کی لیکن جاپان لڑتا رہا۔ امریکہ، خاص طور پر، بحرالکاہل کی مہم کو جلد از جلد ختم کرنے اور امریکی جانی نقصان کو کم سے کم کرنے کا خواہاں تھا کیونکہ جاپانی افواج جو آخری سانس تک لڑ رہی تھیں اور فاتحین کو خاصہ نُقصان پنچا رہی تھیں، یکے بعد یگرے جزائر سے پیچھے بھی ہٹتی جا رہی تھیں۔ سرکاری یبانات کے علاوہ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے خوفناک نئے جوہری ہتھیار کا مظاہرہ یقیناً جنگ کے خاتمے کے بعد یورپ، مشرقی ایشیا اور دیگر جگہوں پر سیاسی طاقت کی ناگزیر تبدیلی میں بہت مفید ثابت ہو سکتا تھا۔ ایٹم بم کا گرانا، سب سے بڑھ کر، USSR کے لیے ریاستہائے متحدہ کی فوجی طاقت کا مظاہرہ تھا۔
393 ویں بمباری سکواڈرن کے دو B-29 بمباروں کو جاپان کے دو بڑے شہروں پر حملہ کرنے کے لیے ایک ایک ایٹم بم لے جانے کے لیے منتخب کیا گیا تاکہ جاپانی فوجی حکومت ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جائے۔ 'Enola Gay' ایک ایٹم بم ہیروشیما لے کر گیا جب کہ 'Bockscar' ایک کو ناگاساکی لے گیا۔ دونوں طیارے ٹینین (Tinian) سے اڑے تاکہ دونوں بم زمین سے تقریباً 1,625 فٹ (500 میٹر) کی بلندی پر پھٹیں اور پِھر پیراشوٹ کے ذریعے گرائے جائیں۔
گروپ کمانڈر اور پائلٹ کرنل پال ٹبیٹس (Paul Tibbets) نےایک یورینیم 235 ایٹم بم صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ (1882-1945 Franklin D. Roosevelt) کے اعزاز میں 'لٹل بوائے' کے نام سے ا ٹھایا جو اُسکی والدہ 'اینولا گے' (Enola Gay) کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ اس بم کی لمبائی 9 فٹ 9 انچ (3 میٹر) تھی، اس کا وزن تقریباً 8,000 پونڈ (3,600 کلوگرام) تھا، اور اس کی دھماکہ خیز طاقت 12.5 کلوٹن TNT کے برابر تھی۔ ہیروشیما کو 6 اگست 1945 کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ جیفری لیونارڈ چیشائر (Geoffrey Leonard Cheshire)، ایک علہدہ طیارے میں سرکاری برطانوی مبصر کی حثیت سے پرواز کر رہا تھا اُسنے یُوں کہا:
فلیش نے ابھی کاک پٹ کو روشن کیا اور جس لمحے میں نے اسے پہلی بار دیکھا، یہ آگ کے گولے کی طرح تھا، لیکن آگ تیزی سے نیچے گر کر ایک گھُومنے،ابلنے، بلبلے اور بادل churning(, boiling, bubbling cloud)) کی شکل اختیار کر گئی۔ یہ راکٹ کی طرح اُوپر کی طرف برھتی جا رہی تھی اور میرے سوچتے ہی سوچتے 2 یا 3 منٹ کے اندر یہ 60،000 فٹ کی بلندی پر تھی۔ (IWM)
اندازے مختلف ہیں، لیکن شاید اس حملے میں تقریباً 140,000 لوگ مارے گئے تھے کیونکہ شہر کا 5 مربع میل (13 مربع کلومیٹر) سے زیادہ علاقہ راکھ میں بدل گیا تھا۔
'Bockscar'، جس کا نام اس کے پائلٹ کمانڈر کیپٹن فریڈرک بوک کے نام پر رکھا گیا تھا اور برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل (1874-1965) کے اعزاز میں'فیٹ بوائے'(Fat Boy) کے نام سے جانا جاتا تھا، بہت زیادہ طاقتور پلوٹونیم 239 ایٹم بم لے کر گیا۔ اس بم کی لمبائی 11 فٹ 4 انچ (3.5 میٹر) تھی، وزن 9,000 پونڈ (4,000 کلوگرام) سے زیادہ تھا، اور اس میں دھماکہ خیز 22 کلوٹن TNT کے برابر مواد تھا۔ ناگاساکی کو 9 اگست کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس بم سے تقریباً 74,000 افراد ہلاک اور 75,000 زخمی ہوئے کیونکہ شہر کا تقریباً 2.6 مربع میل (6.7 مربع کلومیٹر) علاقہ راکھ میں تبدیل ہو گیا تھا۔ دونوں ایٹم بم حملوں میں، ہزاروں زندہ بچ جانے والوں کی اِنکی بعد کی زندگی پر تابکاری کے پھیلاوؐ کی وجہ سے منفی اثرات پڑے۔ جاپانی شہنشاہ، ہیروہیٹو (1901-1989) نے 15 اگست 1945 کو جاپان کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کی آمادگی کا اعلان کیا۔
سروس کا اختتام
B-29 بمبارطیارے سرس دیتے رہے، خاص طور پر کوریا کی جنگ (1950-53) میں اور اِن میں سے کچھ دوسرے طیاروں کے لیے ایندھن کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیے گئے۔ مجموعی طور پرکُل 3,930 (Dear, 114) طیارے بنائے گئے تھے لیکن اِن میں سے آخری طیارہ فعال سروس کے ساتھ 1960 تک زیرِ اِستعمال رہا۔ بمبار نے یقیناً دوست اور دشمن دونوں کو متاثر کیا تھا۔ 1944 کے موسم گرما میں، تین طیاروں کی روس میں ہنگامی لینڈنگ کروائی گئی۔ گرفتاری کے بعد اسباب پیدہ ہُوے کہ سوویت ڈیزائنرز نے اشیا کی نقل کرنےکے اصول کو مدِ نظر رکھتے ہُوئے (Reverse engineering) Tupolev TU-4 کے نام سے ایک طیارہ بنایا-
B-29 ہوائی جہاز کی جگہ بعد میں بتدریج بوئنگ B-50 سپرفورٹریس، Convair B-36 Peacemaker، اور Boeing B-47 Stratojet جیسے بڑے بمباروں نے لے لی۔ دو طیارے، ('Fifi' اور 'Doc') آج بھی پرواز کے قابل ہیں، اور وہ کبھی کبھار ایئر شوز میں پرفارم کرتے ہیں۔ 'Bockscar' کو آج ریاستہائے متحدہ کی فضائیہ کے نیشنل میوزیم، ڈیٹن، اوہائیو Dayton, Ohio میں دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ 'Enola Gay' کو قومی فضائی اور خلائی عجائب گھر کے سٹیون ایف اور اُدوار ہیزی سنٹر (Steven F. Udvar-Hazy) چنٹیلی (Chantilly)، ورجینیا میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔